واشنگٹن: طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان اور ہمسایہ ممالک کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سر فہرست ہے۔
عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آتے ہی خطے میں نا صرف دہشت گردی بڑھی بلکہ علاقائی امن بھی داؤ پر لگ گیا۔
اس وقت افغانستان میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جن کی مذموم کارروائیوں کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔
حال ہی میں روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ نے افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ماسکو میں ہونے والی برکس کاؤنٹر ٹیررزم ورکنگ گروپ کی میٹنگ میں روسی ڈپٹی وزیر خارجہ سر گے ورشنین نے افغانستان میں دہشت گردی کو عالمی مسئلہ قرار دیا تھا۔
روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے۔
سرگے ورشنین کا مزید کہنا تھا کہ “افغانستان مشرق وسطیٰ اور مشرقی شام میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
انھوں نے اپنی تقریر میں طالبان، القائدہ اور داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث ان پر عالمی پابندیوں کا بھی ذکر کیا۔
ادھر برکس مانیٹرنگ ٹیم کا کہنا ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیمیں آج بھی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہیں۔ طالبان نے ہمیشہ دہشت گرد تنظیموں کی سہولت کاری کی۔
مانیٹرنگ ٹیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان حکومت کی بروقت کاروائی نہ کرنے اور دہشت گردی کی پشت پناہی کی وجہ سے القاعدہ اور داعش افغانستان میں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں۔
یاد رہے کہ سکیورٹی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھی القاعدہ افغانستان کے پانچ صوبوں میں مستحکم ہو چکی ہے جن میں کابل اور ننگرہار بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ القاعدہ اپنی تنظیم نو، نئی بھرتیوں اور تربیتی کیمپوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہے۔