پیرو :ماشکو پیرو نامی یہ قبیلہ دنیا میں الگ تھلگ رہنے والے قبیلوں میں سے سب سے بڑا قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ برازیل اور پیرو کی سرحد پر واقع جنگلات میں پھیلا ہوا ہے۔ اس قبیلے کی ایسی تصاویر پہلے کبھی سامنے نہیں آئیں۔
آپ نے ایسی تصاویر اور ان میں موجود افراد کی حرکات پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے جنوب مشرق میں واقع لاس پیئیدراس نامی دریا کہ کنارے درجنوں کی تعداد میں چلتے پھرتے یہ نیم برہنہ افراد یہاں کی دنیا سے الگ تھلگ رہنے والی مقامی قبائلی آبادی ماشکو پیرو سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم علاقے میں اس قبیلے کے لوگوں کا ایسے منظرعام پر آنا ایک انوکھی بات ہے کیونکہ انھیں جنگل میں رہنا پسند ہے اور انھوں نے دنیا سے پُر اسرار طور پر لا تعلقی اختیار کی ہوئی ہے۔
لیکن حال میں ان کے لگ بھگ 50 افراد دریا کے کنارے گشت کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
ماشکو پیرو نامی یہ قبیلہ دنیا میں الگ تھلگ رہنے والے قبیلوں میں سے سب سے بڑا قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ برازیل اور پیرو کی سرحد پر واقع جنگلات میں پھیلا ہوا ہے۔ اس قبیلے کی ایسی تصاویر پہلے کبھی سامنے نہیں آئیں۔
دنیا میں ایسے اور بھی قبائل ہیں لیکن یہ قبیلہ ہر ممکن حد تک دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کا ایک بڑی تعداد میں دریا کے کنارے نظر آنا مقامی قبائلی آبادی کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے حیران کن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ دریا کے کنارے پہلے کبھی نظر نہیں آئے کیونکہ یہاں دیگر قبائل اور مقامی آبادیوں کے افراد کی آمد و رفت رہتی ہے جن سے وہ دور رہنا چاہتے ہیں۔
سروائیول انٹرنیشنل نامی ایسی ہی ایک تنطیم کی ترجمان ٹریسا مایو نے بی بی سی کو بتایا کہ قبیلے کا یہ روّیہ بہت ’حیران کن اور غیر متوقع‘ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اتنی بڑی تعداد میں ان کا اکٹھا ہونا عام بات نہیں ہے۔ تصویروں میں جو انسان نظر آ رہے ہیں وہ سارے مرد ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ لوگ خوراک کی تلاش میں جنگل سے باہر آئے ہیں۔‘
سروائیول انٹرنیشنل کے مطابق مقامی قبائل کے اس رویے کی وجہ یہاں قانونی طور پر جنگلات کی کٹائی کرنے والی کمپنیاں ہو سکتی ہیں جو یہاں کے قدرتی ماحول کو متاثر کر رہی ہیں جہاں یہ ماشکو پیرو قبیلہ رہتا ہے۔
مایو نے بتایا ’یہ لوگ شکاری ہیں اور اناج جمع کرتے ہیں۔ انھیں اپنی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے جنگل کا ایک بڑا رقبہ درکار ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جنگل میں غذا کی ضروریات پوری نہ ہو پا رہی ہوں جس وجہ سے انھیں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔‘
ایک اور چیز جو سامنے آنے والی تصاویر میں ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس قبیلے کے افراد سے رابطے میں آنے کی کوشش کے دوران وہ پرتشدد ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں بھی جب دیگر دنیا نے ماشکو پیرو قبیلے سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کی تو جواب میں ماشکو پیرو سے تعلق رکھنے والے افراد نے نے شدّت پسند رویّوں کا اظہار کیا۔ بعض اوقات ان کا رد عمل مہلک جھڑپوں میں بھی تبدیل ہوا ہے۔
ماشکو پیرو قبیلے کے لوگ خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے قبیلے میں لگ بھگ 750 لوگ ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر دریا کے ارد گرد علاقوں میں بستے ہیں
پیرو کی وزارتِ ثقافت کے پاس ماشکو پیرو قبیلے سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں۔تاہم ان اعداد و شمار کے مطابق ماشکو پیرو قبیلے کے لوگ خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے قبیلے میں لگ بھگ 750 لوگ ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر دریا کے ارد گرد علاقوں میں بستے ہیں۔ ان میں جنوبی پیرو کے مانو، لوس امیگوس، پاریامانو، لاس پیئیدراس، تاہوامانو اور ایکر نامی دریا شامل ہیں۔
یہ دنیا کے چند قدیم آبائی قبیلوں میں سے ایک ہے جو جدید دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہ کر زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم ان کا جدید دنیا کی طرف شدّت پسند رویہ انھیں دنیا سے لاتعلق رہنے والے باقی قبیلوں سے الگ کر دیتا ہے۔
سال 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق ماشکو پیرو کے کچھ لوگوں نے ان کے علاقے سے گزرنے والے سیاحوں کے ایک گروپ پر تیروں کی برسات کر دی تھی۔
اسی سال ان کے ہمسایہ قبیلی سے تعلق رکھنے والے نکولاس ’شاکو‘ فلوریس کے قتل کی بھی اطلاع موصول ہوئی تھی۔ فلوریس کو ماشکو پیرو کے لوگوں نے مارا تھا۔
فلوریس ان کے ساتھ مقیم ایک قبیلے کے رہائشی تھے اور سالوں سے ماشکو پیرو کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ 2015 میں پیش آیا جب لیونارڈو پیریز کے سینے میں ایک تیر لگا جس سے ان کی موت ہو گئی۔ اس وقت وہ جنگل کا دورہ کر رہے تھے اور یہ تیر ماشکو پیرو قبیلے کے کسی فرد نے مارا تھا۔
گلین شیپرڈ نامی ماہر انسانیات نے سال 2015 میں ماشکو پیرو قبیلے کی جانب سے اس پرتشدد رویے، حملوں کے ساتھ ساتھ ماشکو پیرو قبیلے کو باہر کی دنیا سے تعلق قائم کرنے سے خوف کی وجوحات جاننے کی کوشش کی۔
ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جنگلات کی کٹائی کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ ان قبائلی برادری کو منشیات کے سمگلروں سے بھی خطرہ ہے جنھوں نے ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔