لنکن: برطانوی سائنس دان ایک ایسا ’سُپر آلو‘ بنانے کے لیے کوشاں ہیں جس کو پاستہ اور چاول کی طرح کم وقت میں پکایا جا سکے گا۔
جین میں ترمیم کرنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں کا منصوبہ ہے کہ آلو کے ڈی این اے کے اس حصے میں تبدیلی لائے جائے جو سبزی کے خلیوں کے تیزی سے نرم ہونے پر قابو رکھتا ہے۔
اس منصونے کو مکمل کرنے کے لیے برینسٹن پٹیٹو اور اسکاٹ لینڈ کے جیمز ہیوٹن انسٹیٹیوٹ مشترکہ طور پر برطانوی شہر لنکن کی مقامی کمپنی بی ہائیو انوویشنز کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔
سائنس دانون کے مطابق برطانوی آلوؤں کی فروخت میں کمی کی وجہ صارفین میں ایسے کاربوہائیڈریٹس کی طلب ہے جو کم وقت میں پکائے جا سکیں۔
ٹیوبر جین کے کوڈ سے جاری اس منصوبے کا مقصد آلو کاشت کرنے والوں کا ایک اور بڑا مسئلہ یعنی آلوؤں پر پڑنے والے نشان کو حل کرنا بھی ہے۔
برطانیہ میں ہر سال اندازاً 50 لاکھ ٹن آلو کاشت کیے جاتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد کمرشل معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔
بی ہائیو انوویشنز کے جنرل منیجر ڈاکٹر اینڈی گِل کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ آلوؤں پر پڑنے والے نشانات جیسے مسائل کے سبب ہونے والے نقصانات کو حل کرنے کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔
ماہرین پُر امید ہیں کہ جینیاتی طور پر متغیر آلوؤں کی بازار میں فروخت کے لیے کمرشلی کاشت کی جائے گی۔