نیویارک: اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے جبکہ افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان حکومت کے خواتین مخالف 80 حکم نامے جاری کئے ہیں ۔
افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے افغان خواتین کی محرومیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے ، 23 نومبر کو ماسکو اجلاس میں فوزیہ کوفی نے طالبان حکومت کے احکام کی نشاندہی کی جنہوں نے افغان خواتین کو انکے جائز حقوق سے محروم کر دیا ۔
فوزیہ کوفی نے بتایا کہ فغان طالبان حکومت نے 80 حکم نامے جاری کیے ہیں جن کا مقصد معاشرے سے خواتین کو مٹا دینا ہے ، طالبان حکومت نے افغان خواتین کی شناخت کو مسخ کر دیا ہے ۔
طالبان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن نے کہا کہ طالبان کے بس میں ہو تو خواتین کا سانس لینا بھی محال کر دیں، اجلاس میں انہوں نےطالبان گروپ کے دورِ حکومت کے دوران افغان خواتین کی دو سالہ سول جدوجہد کا بھی ذکر کیا ۔
فوزیہ کوفی کاکہنا تھا کہ طالبان گروپ کے خلاف کھڑا ہونا اس ملک کے حالات میں تبدیلی کا باعث بنے گا ، انہوں نے اجلاس میں پیشکش کی کہ خواتین کے حقوق کی بحالی اور طالبان حکومت کے خلاف ایک تحریک چلائی جانی چاہیئے۔
انہوں نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی گروپ دباؤ کے ذریعے افغانستان پر تنہا حکومت نہیں کر سکتا۔
ادھر اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے ، 2023 میں افغانستان میں عورتوں کے 60 ہزار سے زائد کاروباروں کو بند کردیا گیا ۔
اقوام متحدہ ایک اندازے کےمطابق طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 تک 51,000 زچگی اموات کا امکان ہو سکتا ہے۔
حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے افغانستان میں خودکشی کرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے ، ڈی گارڈین رپورٹ وسلن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہونے والی مجموعی خودکشیوں میں خواتین کی شرح تقریباً 80 فیصد ہے۔
امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے مطابق افغان حکومت میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں۔تاہم اب سوال یہ ہے کہ افغان خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن آخر کب تک جاری رہے گا؟۔