تہران: آذربائیجان سے صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر جب ایران واپسی کے لیے روانہ ہوا تو اس کے ساتھ مزید دو ہیلی کاپٹرز نے بھی اُڑان بھری تھی جو بحفاظت اترگئے تھے ان میں سے ایک ہیلی کاپٹر میں غلام حسین اسماعیلی موجود تھے جنھوں نے حادثے کا مکمل احوال سنایا ہے۔
ایران کے صدارتی چیف آف اسٹاف نے ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بارے میں بتایا کہ ایران کے علاقے ورزقان میں، جہاں صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا تھا، شروع میں اور ایک دن پہلے ہونے والی زیادہ تر پروازوں کے دوران موسم کی صورتحال بالکل ٹھیک تھی۔
غلام حسین اسماعیلی نے پیر کے روز سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ میں اُن ہیلی کاپٹرز میں سے ایک میں سوار تھا جو آذربائیجان کے ساتھ ایران کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آ رہے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے دوپہر ایک بجے کے قریب ٹیک آف کیا تھا اور علاقے میں موسم کی صورتحال معمول پر تھی۔
غلام حسین اسماعیلی کے بقول پرواز کے 45 منٹ بعد صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے جو قافلے کا انچارج تھا، دوسرے ہیلی کاپٹروں کو حکم دیا کہ وہ قریبی بادل سے بچنے کے لیے اپنی اپنی اونچائی بڑھائیں۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ اس کے محض 30 سیکنڈ بعد صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر جو دو دیگر ہیلی کاپٹرز کے درمیان اڑ رہا تھا، اچانک غائب ہو گیا۔ ہمارے پائلٹ نے دیکھا کہ صدر کا ہیلی کاپٹر فضا میں نہیں ہے۔
غلام حسین اسماعیلی کے بقول ہمارے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے چکر لگانے اور واپس آنے کا فیصلہ کیا لیکن بادلوں اور فوگ کے باعث ہیلی کاپٹر کی بلندی کو کم نہیں کرسکا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ریڈیو ڈیوائسز کے ذریعے صدر کے ہیلی کاپٹر سے رابطہ کرنے کی کئی کوششیں کیں لیکن ناکامی کا سامنا رہا جس کے بعد ان کے ہیلی کاپٹر نے اپنی پرواز جاری رکھی اور قریبی تانبے کی کان پر اترا۔
غلام حسین اسماعیلی کے بقول انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ امیرعبداللہیان اور صدر کے تحفظ کے یونٹ کے سربراہ نے بھی بار بار کی جانے والی کالوں کا جواب نہیں دیا۔
تاہم دیگر 2 ہیلی کاپٹروں کے پائلٹوں نے صدر کے ہیلی کاپٹر کے انچارج کیپٹن مصطفوی سے رابطہ کیا تھا، لیکن جس نے ان کا فون اٹھایا وہ تبریز امام محمد علی الہاشم تھے، جن کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
محمد علی الہاشم نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر ایک وادی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ بعد ازاں غلام حسین اسماعیلی نے خود بھی علی ہاشم سے رابطہ کیا اور ان سے مقام کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
غلام حسین اسماعیلی نے کہا کہ جب ہم جائے حادثہ پہنچے تو آیت اللہ ابراہیم رئیسی اور دیگر ساتھی موقع پر ہی جاں بحق ہو چکے تھے جب کہ محمد علی الہاشم کئی گھنٹے زندہ رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۔
یاد رہے کہ محمد علی الہاشم تبریز کے امام اور رہبر اعلیٰ خامنہ ای کے نمائندۂ خصوصی تھے اور ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار تھے۔ وہ اس واقعے میں شہید ہونے والے آٹھویں شخص تھے۔