تہران : ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد ملک کے نائب صدر محمد مخبر نے دو ماہ کے لیے ملک کی صدارت سنبھال لی ہے۔ 68 سالہ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کی طرح سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ 1955 میں پیدا ہونے والے محمد مخبر ایرانی مصالحت کونسل کے رکن بھی ہیں۔
محمد مخبر کی بطور عبوری صدر تقرری کا اعلان ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی منظوری کے بعد کیا گیا۔
ایران کے آئین کے مطابق ملک میں 50 دن کے اندر دوبارہ صدارتی انتخاب کروایا جائے گا، اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے آرٹیکل 131 کے مطابق صدر کی موت کی صورت میں، ان کا نائب ’قیادت کی منظوری سے، اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں سنبھالتا ہے اور اسمبلی کے سپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور عبوری صدر زیادہ سے زیادہ 50 دنوں کے اندر نئے صدر کے انتخاب کا انتظام کرنے کے پابند ہیں۔
ابراہیم رئیسی کے نائب بننے سے پہلے، محمد مخبر دیزفولی تقریباً 15 سال تک ایران کے امیر ترین اقتصادی گروپوں میں سے ایک ’ستاد اجرائی فرمان امام‘ کے ایگزیکٹو سٹاف کے سربراہ تھے۔
یہ گروپ براہ راست اسلامی جمہوریہ کے رہبرِ اعلیٰ کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور کسی بھی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔
گزشتہ روز ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر گزشتہ روز آذربائیجان کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آتے ہوئے موسم کی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں ایرانی صدر، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام جاں بحق ہوگئے۔
68 سالہ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کی طرح سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ 1955 میں پیدا ہونے والے محمد مخبر ایرانی مصالحت کونسل کے رکن بھی ہیں۔
ابراہیم رئیسی نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اگست 2021 میں محمد مخبر کو اپنا پہلا نائب صدر مقرر کیا تھا۔محمد مخبر ایرانی حکام کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے اکتوبر2023 میں ماسکو کا دورہ کیا تھا اور روس کی فوج کو میزائل اور مزید ڈرون فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اس ٹیم میں ایران کے پاسداران انقلاب کے دو سینئر اہلکار اور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔
اس سے قبل محمد مخبر سپریم لیڈر سے وابستہ سرمایہ کاری فنڈ سیتاد کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ سینا بینک کے بورڈ چیئرمین اور صوبہ خوزستان کے ڈپٹی گورنر ہیں۔2013 میں امریکی محکمہ خزانہ نے سیتاد اور اس کے زیر انتظام 37 کمپنیوں کو پابندی کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
نائب ایرانی صدر کے پاس دو ڈاکٹریٹ ڈگریاں ہیں جن میں بین الاقوامی حقوق میں ڈاکٹریٹ کا تعلیمی مقالہ بھی شامل ہے، انہوں نے مینجمنٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔