ڈھاکا: بنگلہ دیش میں گزشتہ 38 روز میں آسمانی بجلی گرنے سے 35 کسانوں سمیت 74 شہری جاں بحق ہوگئے اور ماہرین نے اس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو قرار دے دیا۔
خبرایجنسی اناطولو کی رپورٹ کے مطابق سیو دا سوسائٹی اور تھندراسٹورم ایوئرنیس فورم نے رپورٹ میں بتایا کہ مئی کے ابتدائی 8 روز کے دوران بجلی گرنے سے 43 افراد جاں بحق ہوئے اور اپریل میں 31 افراد آسمانی بجلی سے جان کھو بیٹھے تھے۔
رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے ابتدائی دنوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے روزانہ 11 افراد جاں بحق ارو 9 زخمی ہو گئے۔
اعداد وشمار کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں 2021 تک ایک دہائی کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے دو ہزار 800 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ بنگلہ دیش خلیج بنگال میں گھرا ہوا ہے اور یہاں آسمانی بجلی گرنے کے خون ریز واقعات مسلسل پیش آتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آسمانی بجلی گرنے کے خون ریز واقعات بھی موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہیں۔
جہانگیرنگر یونیورسٹی کے پروفیسر اور فورم کے صدر کبیرالبشیر نے بتایا کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کی دو وجوہات سامنے آئی ہیں، عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تپش اور بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں درختوں کا کٹاؤ اور خاص طور پر کھیتوں میں لمبے درختوں کا کٹاؤ ان وجوہات میں شامل ہیں۔
ماہر ماحولیات شہریرالحسین نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں آسمانی بجلی گرنے کی اہم وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی بے وقت بارش، انتہائی گرمی اور بارشوں میں تاخیر کی وجہ بن گئی ہے، آسمانی بجلی گرنے کے واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب زمین پر درجہ حرارت ماحول اور ہوا کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات کا کٹاؤ اور لمبے درخت جیسا کہ پام کے درختوں کے کٹاؤ سے موسمیاتی بحران پیدا ہوتا ہے اور کھلی فضا میں کام کرنے والے کسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
شہریرالحسین نے تجویز دی کہ ہم آگاہی، آسمانی بجلی روکنے والے ٹاور نصب کرکے اور موسمیاتی پیش گوئی کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا بحران کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں سے بچ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق بنگلہ دیش میں سالانہ بنیاد پر آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح 300 ریکارڈ کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں رواں برس اپریل کے دوران 1948 سے اب تک تاریخ کا طویل ترین ہیٹ ویو ریکارڈ کیا گیا اور پہلی مرتبہ ملک کے 75 سے 80 فیصد علاقوں میں مسلسل ہیٹ ویو رہا ہے۔