واشنگٹن : رفح میں اسرائیل کے زمینی حملے کے خدشے کے پیش نظر امریکا نے اسرائیل کو بارودی مواد کی کھیپ کی ترسیل روک دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ کھیپ میں 900 کلو گرام سے زائد بارودی مواد اور 225 کلو گرام سے زائد بارودی مواد شامل تھا۔
اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کھیپ کو روکنے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ آیا ان ہتھیاروں کی منتقلی مستقبل میں ہو گی۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے رفح میں شہریوں کی انسانی ضروریات کے حوالے سے امریکا کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو حل نہیں کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے عہدیدار نے کہا کہ امریکی مؤقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کو رفح میں بڑا زمینی آپریشن شروع نہیں کرنا چاہیے، جہاں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لیے کوئی متبادل جگہ نہیں ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی افواج نے غزہ اور مصر کے درمیان فلسطینی سائیڈ پر رفع کراسنگ پرآپریشنل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ رفع کراسنگ کی بندش کا مطلب ہے غزہ کے لیے دو اہم امدادی راستے بند ہو چکے ہیں ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل سے کہا ہے کہ غزہ کے لیے امدادی سامان کی ترسیل ممکن بناتے ہوئے رفح کی راہداری کو کھول دے اور رفح تک جنگی پھیلاؤ کو روک دے۔
اس سے قبل 6 مئی کو حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنگ بندی معاہدے میں لڑائی میں ایک ہفتے کا وقفہ اور غزہ میں قید اسرائیلیوں کی رہائی شامل ہے تاہم اسرائیل نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ اُن کے ’(جنگ بندی سے متعلق) اہم اور بنیادی مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتا‘ اور اسرائیل اب ایک ’قابل قبول معاہدے‘ کے لیے مصر میں اپنا ایک وفد بھیج رہا ہے۔
علاوہ ازیں سرکاری فلسطینی نیوز ایجنسی نے منگل کے روز اطلاع دی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ “اسرائیلی قابض حکام کو رفح پر حملہ کرنے اور اس کے شہریوں کو بے گھر کرنے سے روکنے کے لیے فوری مداخلت کرے”۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 78 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں ، جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔