باتھ: ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس اپنی اسٹرینجر تھنگز اور اسپائیڈر مین جیسی سیریز میں نوجوانوں کو درپیش تکالیف کو معمولی بنا کر پیش کر رہی ہے۔
60 گھنٹوں سے زیادہ کی نیٹ فلکس فلموں اور ٹی وی شوز کے مطالعے کے بعد یونیورسٹی آف باتھ اوریونیورسٹی آف کیلگری کے ماہرینِ نفسیات اس نتیجے تک پہنچے کہ سیریز میں موجود نوجوان کرداروں میں تکلیف کی عکاسی گمراہ کن ہے۔
نیٹ فلکس پر عموماً جسمانی تکلیف کو صرف کسی تشدد یا چوٹ کی صورت (حملہ ہونے یا حادثے کے سبب) ہونے کے طور پر دِکھایا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی دنیا میں سر درد، کمر درد اور کینسر جیسی بیماریوں کے سبب ہونے والی تکالیف، تکلیف کی زیادہ حقیقی اقسام ہیں۔
کیوں کہ نیٹ فلیکس کی ان پروڈکشنز کا ہدف عموماً نوجوان ہوتے ہیں، اس لیے ماہرین اسٹریمنگ پلیٹ فارم پر زور دے رہے ہیں کہ نوجوانوں کو رحمدلی اور ہمدردی سکھانے کے لیے کمپنی تکلیف کی عکاسی کرنے انداز کو بدلے۔
یونیورسٹی آف باتھ کے شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایبی جورڈن کا کہنا تھا کہ اگر کمر درد یا سر درد جیسی تکالیف کی وہ اقسام جن میں نوجوان عموماً مبتلا ہوتے ہیں، نہیں دکھائی جارہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تکلیف کو انتہائی غیر اہم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو تکلیف سے نمٹنے، اس کے متعلق بات کرنے اور اگر کوئی دوسرا کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو کس طرح ہمدردی دکھائی جائے، یہ سب سکھانے میں ہم بالکل بھی مناسب کام نہیں کر رہے۔
جرنل پین میں شائع ہونے والی تحقیق میں نفسیاتی تکلیف کے بجائے صرف جسمانی تکلیف کا مطالعہ کیا گیا۔تحقیق میں محققین نے 12 سے 18 برس کے نوجوانوں کے لیے بنائے گئے نیٹ فلیکس کے مختلف شوز میں دکھائی گئی کرداروں کی تکلیف کا جائزہ لیا۔
کل 16 پروڈکشنز میں732 تکلیف دہ وقوعات دیکھے گئے اور اکثر(57 فی صد) وقوعات دائمی یا طبی تکلیف کے بجائے تشدد یا چوٹ کے سبب ہونے والی تکلیف پر مبنی تھے۔