لندن: برطانیہ کے اداروں کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجینس(اے آئی) کو مریضوں کو مستقبل میں صحت سے متعلق پیش آنے والی صورت حال کی پیش گوئی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اسکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن (کے سی ایل)، یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل)، کنگز کالج ہسپتال این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ اینڈ گائز اینڈ سینٹ تھامس این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ سے منسلک محققین نے فورسائٹ کے نام سے اے آئی آلہ بنایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ آلہ چیٹ جی پی ٹی کی طرح کا اے آئی ماڈل ہے لیکن این ایچ ایس الیکٹرونک ریکارڈز سے حاصل معلومات کا استعمال کرتے ہوئے تربیت دی گئی ہے۔
محققین نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کو مریضوں کی نگرانی یا بیماری کی تشخیص میں ڈاکٹروں کی مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے لندن میں این ایچ ایس ٹرسٹ اور امریکا میں سرکاری سطح پر دستیاب مواد سے 8 لاکھ 11 ہزار سے زائد مریضوں سے حاصل دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے فورسائٹ کے تین مختلف ماڈلز کو تربیت دی۔
رپورٹ کے مطابق مریضوں کے ریکارڈز کی بنیاد پر ایک مریض کو ممکنہ طور پر لاحق ہونے والی 10 ممکنہ بیماریاں دی گئی تھیں اور این ایچ ہسپتالوں کا مواد استعمال کرتے ہوئے فورسائٹ درست انداز میں صورت حال کی شناخت کرنے میں 68 فیصد اور وقت کے حوالے سے 76 فیصد قابل تھا اور امریکی مواد استعمال کرتے ہوئے وقت کے حوالے سے 88 فیصد درست تھا۔
کے سی ایل میں ہیلتھ انفارمیٹیکس، بائیواسٹیٹسٹکس میں ریسرچ فیلو زیلجکو کریلجویک نے دی لینسٹ ڈیجیٹل ہیلتھ میں شائع مذکورہ تحقیقی مقالے میں کہا کہ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آلہ مریضوں کی بیماری کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے لیے بہترین نتائج حاصل کرسکتا ہے اور یہ فیصلہ سازی اور باخبر کلینکل ریسرچ میں مدد کے لیے سودمند آلے کے طور پر قابل استعمال ہوسکتا ہے۔
کے سی ایل اور یو سی ایل میں میڈیکل انفارمیٹکس، نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میں انفرمیٹکس کے سینئر ذمہ دار اور ماؤڈسلسے بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی ) میں کیئر ریسرچ (این آئی ایچ آر) پروفیسر رچرڈ ڈبسن نے کہا کہ ہیلتھ کیئر میں اے آئی کے لیے ایک خوش گوار لمحہ ہے اور مؤثر آلہ ترتیب دینے کے لیے ہمیں یقینی بنانا چاہیے کہ ماڈلز کی تربیت کے لیے متعلقہ ڈیٹا استعمال کریں اور مریضوں سے تعاون کے لیے ہیلتھ کیئر سسٹم میں جدت کے مقصد سے مل کر کام کریں۔
محققین کی ٹیم اب دیگر ہسپتالوں کو فورسائٹ ٹو کی تیاری میں شامل کرنے کے لیے سرگرداں ہے، جس کے بارے میں پروفیسر ڈبسن نے کہا کہ اس سے مزید درست زبان کا ماڈل سامنے آئے گا۔