برن: عمارتوں یا پلوں جیسے انفرا اسٹرکچر کی نگرانی کرنے یا قوتِ سماعت سے محروم افراد کی مدد کے لیے گیجٹس جیسی اہم ٹیکنالوجی جیسے متعدد اہم معاملات میں اس وقت سینسر بڑے پیمانے پر استعمال کیے جارہے ہیں۔
لیکن ان سینسرز میں مسلسل توانائی کی فراہمی کی ضرورت کی وجہ سے یہ بیٹریوں پر انحصار کرتے ہیں جن کوباقاعدگی سے بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے سبب وسیع پیمانے پر برقی کچرا جمع ہوتا ہے۔
یورپی یونین کی ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک روزانہ 7.8 کروڑ بیٹریاں روزانہ کچرے دان میں پھینکی جائیں گی ۔ یہ بیٹریاں ایسے مواد سے بنی ہوتی ہیں جن کو جمع کرنا اور اس سے چھٹکارہ پانا مشکل ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک ایسا سینسر بنانے کا دعویٰ کیا ہے جو بیٹریوں کی جھنجھٹ سے چھٹکارہ دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ای ٹی ایچ زیوریخ میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا مکینکی سینسر بنایا ہے جس کو چلنے کے لیے توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ بیٹری کے کچرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے رہنماؤں میں سے ایک جوہان روبرٹسن کا کہنا تھا کہ یہ سینسر آواز کی لہروں میں موجود مرتعش توانائی کو استعمال کرتا ہے۔
یہ سینسر مخصوص آواز (کوئی مخصوص لفظ کی ادائیگی یا مخصوص آواز کے پیدا ہونے) پر عمل کرنے کے قابل ہے۔ آواز کی لہروں کا مخصوص سیٹ ہی سینسر میں ارتعاش کا سبب ہوتا ہے ، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ سینسر فعال ہوچکا ہے۔