غزہ : غزہ میں اسرائیل کی نہتے فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے، اب تک شہادتوں کی تعداد 17ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ، شہید ہونے والے افراد میں 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کے ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کو توقع ہے کہ فوج جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس میں تین سے چار ہفتوں میں اپنا فوجی آپریشن ختم کر دے گی۔
ایک نیوز سائٹ کے مطابق اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ جنگ کا زیادہ شدت والا مرحلہ مزید تین سے چار ہفتوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
اس حوالے سے ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ فوج نے غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں “اہم پیش رفت” کی ہے، لیکن جنوبی پٹی میں خان یونس میں آپریشن، جہاں اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس کی کمانڈ سینٹر قیادت قائم ہے” میں آپریشن ابھی ابھی شروع ہوا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اسرائیل کو “نکیل نہیں” ڈال رہا اور نہ ہی اسے آپریشن روکنے کے لیے کوئی مخصوص ڈیڈ لائن دے رہا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اہلکار کا کہنا تھا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تنازع کا تعلق اسرائیل کی طرف سے غزہ جنگ کے مشکل ترین مرحلے کو ختم کرنے کے لیے مقرر کردہ ٹائم ٹیبل سے ہے۔
اسرائیلی فوجی اہلکار نےواضح کیا کہ اگر اسرائیل دسمبر کے آخر تک آپریشن کا انتہائی شدید مرحلہ مکمل کر لیتا ہے تو امریکہ مطمئن ہو گا جبکہ اسرائیل جنوری کے آخر کو سامنے رکھ کر آپریشن کر رہا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ سٹی، خان یونس، دیر البلح اور نصیرات میں جمعہ کو بھی جھڑپیں جاری رہیں جن میں اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائیوں اور فضائی اور بحری بمباری بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ پر اپنے زمینی حملے کا دائرہ بڑھاتے ہوئےپٹی کے دوسرے بڑے شہر خان یونس پر توجہ مرکوز کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی اسرائیل سے ہسپتالوں اورطبی کارکنوں کی حفاظت پر زور دیا ہے ۔
عرب میڈیا کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے ایک درجن سے زائد رکن ممالک نے جمعہ کو ایک مسودۂ قرارداد پیش کیا جس میں اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ غزہ میں انسانی ہمدردی کارکنان کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرے۔
7 اکتوبر کو حماس کے مزاحمت کاروں کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں جنگ شروع ہو گئی تھی جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور کئی ایک یرغمال بنا لیے گئے جن میں سے 138 بدستور اسیر ہیں۔
اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کے ترجمان کرسچن لنڈمیئر نے گزشتہ روز صحافیوں کو بتایا کہ غزہ کا نظامِ صحت انہدام کے دہانے پر تھا اور وہ ایک اور ایمبولینس یا ہسپتال کے ایک بستر کے نقصان کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے او سی ایچ اے نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں 36 ہسپتالوں میں سے صرف 14 میں کام کرنے کی کوئی صلاحیت باقی تھی۔
ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہفتے کی صبح غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کو منظور کرنے میں اس وقت ناکام رہی جب امریکا نے قرارداد کو ویٹو کر دیا۔