سرینگر: مودی سرکار اپنے تیسرے دورِحکومت میں انتہا پسندی اور ریاستی دہشتگردی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد الیکشن کرواۓ جارہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عالمی دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنا ہے۔
2014 میں وادی میں انتخابات ہوئے تھے تاہم 2019 میں وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد 2024 میں نام نہاد انتخابات ہو رہے ہیں۔
18 ستمبر کو مقبوضہ وادی میں شروع ہونے والے الیکشن کے پہلے فیز کے بعد مودی حکومت نے یہ تاثر دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اور نئی ترامیم کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
دوسرے فیز میں بندوق کے زور پر بھی مقبوضہ وادی کے باشعور اور غیور عوام کو مودی اپنے حق میں کرنے میں ناکام رہا۔
سری نگر میں دوسرے فیز میں ووٹنگ کے دوران کم ٹرن آؤٹ کے حوالے سے عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی غلط پالیسیوں کے باعث عوام اب اس پر اعتماد نہیں کر رہی ہے۔
مقبوضہ وادی میں جموں جو کہ ہندو اکثریتی علاقہ ہے وہاں کی عوام نے بھی مودی سرکار کی انتہاپسندی پر مبنی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
دوسرے مرحلے میں مودی کو شکست دیتے ہوئے سری نگر کے علاقے کے 70 فیصد ووٹرز ووٹنگ کے عمل سے دور رہے جس کی وجہ سے ٹرن آؤٹ صرف 29.27 رہا۔
مقبوضہ وادی میں مودی کے خلاف ووٹ کی سب سے بڑی وجہ آرٹیکل 370 کی منسوخی ہے جس کی وجہ سے ووٹرز میں غم و غصہ واضح نظر آ رہا ہے۔
سری نگر میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ تاریخی طور پر کم رہا ہے، جو بی جے پی کی سیاست پر عدم اطمینان مودی کی مسلم کش پالیسیوں کا ظاہر کرتا ہے۔
ان تمام حقیقی شواہد کے باوجود بی جے پی سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ پروپیگینڈا کر رہی ہے کہ ٹرن آؤٹ شاندار رہا اور ووٹرز نے ان پر اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے۔
مقبوضہ وادی میں نام نہاد انتخابات میں مودی سرکار کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہیں، عوام نے ان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔