اسلام آباد: عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پُرامن اجتماع بل کے بعد سے یہ ساری اسمبلی ایک ایس ایچ او کی مار ہے، آج کوئی بات کریں گے تو مونچھوں والا تھانیدار ساتھ لے جائے گا، ایک بار پر تین سال کی سزا ہے دوسری بار پر دس سال کی سزا ہے، کیا شرم نہیں کہ خود کو ڈی سی کے تابع کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے ایسے قانون بنائے جا رہے ہیں جو مارشل لاء کے بدترین دور میں نہیں تھے، جلسے سے پہلے دوران اور بعد میں کیا ہوا یہ ملک کی سیاسی قدروں کی عکاسی کرتا ہے، جلسہ دس پندرہ کلومیٹر باہر تھا مگر سارا اسلام آباد بند تھا، انٹرنیٹ آدھا کر دیا یہ کون سی جمہوریت ہے؟
انہوں نے کہا کہ آپ نے اجازت دی ہے جلسے کی، جلسے کے دوران وزیر اعلیٰ کے پی نے تقریر کی پورے جلسے میں عوام کی بات نہیں ہوئی صرف گالی کلوچ ہوئی اگر ان کی مذمت نہ ہو تو جمہوریت کا حق ادا نہیں ہو گا کیوں کہ ذمہ دار آئینی عہدے پر ہوں تو ہر لفظ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرُامن اجتماع بل قانون جو پاس کیا جس کو ایک ہاؤس میں ن لیگ جبکہ دوسرے ہاؤس میں پیپلز پارٹی نے پیش کیے نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے مارشل لاء میں قانون بن چکے ہیں، اس قانون کا موضع سنگجانی میں اطلاق ہوگا یہ لکھا جانا چاہیے تھا، جلسے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے آرٹیکل سولہ اس کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سے 15 صحافی نکل کر باہر جائیں گے تو اجازت لینی ہوگی؟ دارالحکومت نیشنل سیکیورٹی کے ایشو کا شکار ہے، پندرہ افراد کی اسمبلی پر تھانے دار مقدمہ درج کر سکتا ہے، قومی اسمبلی سینیٹ کے کسی شخص نے یہ قانون نہیں پڑھا، پندرہ سینٹرز اگر پارلیمنٹ سے نکلیں گے تو قانون کا اطلاق ہوگا پی ٹی آئی نے بھی اس قانون کے بارے میں بات نہیں کی ایک جلسے سے خائف ہو کر اندھے کالے قانون بنا دیں،
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں جمہوریت نہیں آمریت ہے یہ ساری اسمبلی ایک ایس ایچ او کی مار ہے، آج کوئی بات کریں گے تو مونچھوں والا تھانیدار ساتھ لے جائے گا، ایک بار پر تین سال کی سزا ہے دوسری بار پر دس سال کی سزا ہے، کیا شرم نہیں کہ خود کو ڈی سی کے تابع کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن سیکنڈ ترمیمی ایکٹ 2024ء کا بھی قانون آیا ہے جو کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے مکمل خلاف ہے، جو مرضی سپریم کورٹ فیصلے کرے یہ قانون تابع نہیں ہے، اس قانون کو بھی ایک جماعت سینیٹ ایک قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے، ایک فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے قانون بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ نہیں آئین کی تشریح کرتی ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے آمنے سامنے کھڑے ہیں پارلیمنٹ کہتی ہے کہ تم فیصلہ کرو ہم آئین بنا دیں گے، میں قاضی فائز عیسیٰ سے توقع رکھوں گا فائز عیسیٰ کسی بھی طرح کی توسیع کو قبول کرنے سے انکار کردیں تاریخ ان کو یاد رکھے گی آج امتحان سپریم کورٹ کا ہے ملک کا آئین ہوگا تو ملک چلے گا۔