اسلام آباد: سینیٹ میں ریٹائر ہونے والے اراکین نے الوداعی اجلاس میں اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کسی نے کہا کہ ایک دن کی وزارت عظمیٰ مل جائے تو اراکین پارلیمنٹ کو حاصل جہازوں کے مفت ٹکٹ بند کردوں گی اور کسی کو بھی مفت بجلی اور مفت پٹرول نہیں لینے دوں گا اور کسی نے کہا کہ نگران حکومتوں کا نظام ختم کردیا جائے۔
سینیٹ اجلاس ڈپٹی چئیرمین مرزا آفریدی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا، تلاوت کلام پاک کے بعد ایوان میں سروس ٹربیونل ایکٹ 1973 کے ترمیمی بل پر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رپورٹ پیش کردی گئی، اس کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کردی گئی۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا تاجروں کا کہنا ہے ایک وقت میں پاک افغان تجارت 5ارب ڈالر تھی جو بارڈر پر حائل رکاوٹوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے،کابل سے آئے ہوئے تاجر پریشان ہیں، پرانے طریقہ کارکے مطابق پاک-افغان تجارت جاری رکھی جائے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ہمارے تین ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں، پاک-افغان تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہونی چاہئیں، افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئی اسمبلی آگئی ہے، ہم ان سے کہیں آئین میں جو سقم ہے ان کو دور کیا جائیں، دنیا بھر میں حکومتیں آتی اور جاتی ہیں، سب پارلیمنٹیرینز جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کریں۔
سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں نگران حکومتیں ابھی بھی ہیں، متعدد ممالک میں نگران حکومتوں کا نظام ختم ہوچکاہے ، صوبوں میں نگرانوں نے 13,13مہینے اور وفاق میں 7،7 مہینے حکومت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں نیب کو ختم ہو، آرٹیکل 62-63 کو اصل حالت میں بحال ہونا چاہیے، ہم زور دیں گے کہ نگران حکومتوں کا نظام لپیٹ دیا جائے۔
سینیٹر تاج روغانی نے جذباتی انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ہماری مخصوص نشستوں پر ڈاکا نہ مارا جائے، مخصوص نشستیں ہمارا حق ہیں اور ہمیں دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جب اس ایوان میں آتے ہیں توحلف لیتے ہیں، قسم لے کر اس پر عمل نہ کرنے کا بہت زیادہ گناہ ہے، میرا خیال ہے یہ قسم لینے کا سلسلہ ختم کیا جائے، میں جس کمیٹی میں تھی مجھے بتایا جائے کہ اس پر کتنا خرچہ ہوتا ہے، ایک،ایک کمیٹی کو اتنے زیادہ پیسے دیے جاتے ہیں۔
سینیٹر تاج روغانی نے کہا کہ جب اراکین پارلیمنٹ کو رہائش دی جاتی ہے تو پھر رہائش کے پیسے کیوں دیے جاتے ہیں، اس ایوان کا بل قومی اسمبلی میں نہیں جانا چاہیے، 50 سال سے ٹیکنالوجی کے ماہرین کام کر رہے ہیں لیکن ان کا سروس اسٹرکچر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کا نظام خراب ہوچکا ہے، اگر میں ایک دن کے لیے وزیراعظم بنی تو میں عیاشیاں ختم کروں گی، میں کسی کو مفت پٹرول نہیں دوں گی، میں کسی کو مفت بجلی نہیں دوں گی، میرے گاؤں میں واپڈا کے غریب ملازمین، ہم سینیٹرز کو ائیر ٹکٹ نہیں ملنے چاہئیں، ہماری تنخواہ ایک لاکھ 60 ہزار ہے اس کو زیادہ کیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ مخصوص نشستیں نہ دینے کے معاملے پر ہم آج ہائی کورٹ جا رہے ہیں، مخصوص نشستیں ہمارا حق بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے پارٹی کی نمائندگی کے تناسب سے انہیں سیٹیں دی جائیں گی، نہ صرف ہماری سیٹیں روکی گئیں بلکہ یہ سیٹیں دیگر پارٹیوں کو دے دی گئی ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں چئیرمین پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو رہا کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں 26 سیٹیں دے دی گئیں حالانکہ انہوں 19 سیٹیں جیتی ہیں۔
سینیٹر مولا بخش چانڈیونے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ مجھے زندگی میں الوداع کہنا بہت برا لگتا ہے، فیصل کو میں بے بی کہہ کر چھیڑتا رہا ہوں، پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو تلخیوں کو بھولنا ہوگا۔
مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سیاست دان ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گے تو ملک کو کیسے آگے لے کر چلیں گے، جب آپ کہیں گے کہ سیاست دانوں سے بات نہیں کرنی تو کیا ملائکہ سے بات کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جتنا نام سینیٹ کا ہے اتنا سینیٹ کا اختیار نہیں ہے، غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے میں نے ایک بل سینیٹ سے منظور کرایا تھا وہ قومی اسمبلی میں جا کر پھنس گیا ہے، ایسانظام ہونا چاہئے کہ یہاں منظور ہونے والا بل اسمبلی سے خود بخود منظور ہوجائے، بل برسوں پڑے رہتے ہیں کوئی دیکھتا ہی نہیں ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں وہ ہم نہیں ہونے دیں گے، اس ملک میں اعتماد کی کمی ہے، اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو سیاست دانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ایسی کوشش کریں کہ سیاست دانوں کو الیکشن کے ذریعے ووٹوں سے بھیجا جائے، یہ ضد چھوڑ دیں کہ آپ فرشتے ہیں، یہ بات غلط ہے کہ میں بات نہیں کروں گا، بات تو آپ کو کرنی ہوگی، سیاست دانوں سے بات نہیں کرو گے تو کس سے بات کرو گے، پاکستان چلانا ہے تو سیاست دانوں سے بات کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں پر بھی اعتماد کرنا چاہیے، اداروں کو بھی چاہیے کہ وہی رویہ اپنائیں کہ لوگ آپ پر اعتماد کریں، جمہوریت کو چلنے دیں، جمہوریت کو غلطیاں کرنے دیں۔
مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ پاکستان کے ان اداروں سے کہتا ہوں جن پر سالمیت کی ذمہ داری ہے، ان سے کہتا ہوں جمہوریت میں نہ گھسو، جمہوریت کو ڈی ریل نہ کریں، ہمارے صحافی مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔