تہران:ایران میں 2022 میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت اور پھر ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد پھانسی پانے والے افراد کی تعداد میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے، 2023 کے دوران 834 افراد کو پھانسی دی گئی، یہ تعداد دو دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ایران میں پھانسی کی سزا میں 43 فیصد اضافہ ہوا اور گذشتہ برس 834 افراد کو تختہ دار پرلٹکایا گیا۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس ( آئی ایچ آر ) اور پیرس میں واقع ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی ( ای سی پی ایم ) نامی انسانی حقوق کے گروپوں کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونےو الے ملک گیر پُرتشدد احتجاج کے ردعمل میں پھانسی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ان پھانسیوں میں سے 9 کا تعلق 2022 کے احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز پر حملوں سے تھا تاہم دیگر جرائم کے تحت دی جانے والی پھانسی کی سزا میں بھی اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 2023 میں جن افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا ان میں سے نصف سے زائد ( 471 ) کو منشیات سے منسلک جرائم کے تحت یہ سزا دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق 834 افراد میں سے 167 افراد ایران کے جنوب مشرق میں رہائش پذیر سنی بلوچ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔
بیشتر قیدیوں کو پھانسی جیلوں کے اندر دی گئی تاہم 7 مجرموں کو سرعام پر پھانسی پر لٹکایا گیا۔
گذشتہ سال پھانسی پانے والے افراد میں 22خواتین بھی شامل تھیں جو گذشتہ عشرے میں خواتین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے 15 خواتین کو قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ نے پُرتشدد احتجاج کی لہر کے بعد ایران میں دی جانے والی پھانسیوں کو ’ ریاستی منظوری سے ہونےوالی ہلاکتیں‘ قرار دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل دیے گئے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے ایرانی حکام سے ملاقات میں 2022 کے احتجاج میں حصہ لینے کی پاداش میں موت کی سزا پانے والے افراد کی پھانسی پر عمل درآمد روک دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی تشکیل کو ’ کُلی طور پر سیاسی اور ناقابل قبول اقدام ‘ قرار دیا تھا۔