واشنگٹن: امریکا میں پہلی مرتبہ ایک مجرم کی سزائے موت پر پھانسی کے بجائے نائٹروجن گیس کے ذریعے عمل درآمد کیا گیا جس پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست الاباما میں 1989 میں ایک مبلغ نے اپنی اہلیہ کو انشورنش کی رقم کے لیے بیدردی سے قتل کرا دیا تھا جس میں دو اجرتی قاتلوں کو پھانسی کی سنائی گئی تھی۔
ان میں سے ایک مجرم کینیتھ اسمتھ کو امریکا کی تاریخ میں پہلی بار سزائے موت نائٹروجن گیس کے ذریعے دی گئی جس کے لیے 58 سالہ مجرم کو ایک ایسا ماسک پہنایا گیا تھا جس میں نائٹروجن گیس بھری ہوئی تھی۔
اٹارنی جنرل نے میڈیا کو بتایا کہ نائٹروجن گیس سے بھرا ماسک پہنانے کے محض 40 منٹ کے اندر مجرم اسمتھ کی موت واقع ہوگئی۔
یاد رہے کہ کینیتھ اسمتھ کو دو سال قبل مہک اور جان لیوا انجیکشن لگا کر بھی سزائے موت پر عمل درآمد کی کوشش کی گئی تھی لیکن سزا کے لیے دیئے گئے وقت کے دوران نس نہ ملنے کی وجہ سے موخر کردی گئی تھی۔
جتنا یہ طریقہ سزائے موت پریشان کن ہے اتنا ہی وہ قتل بھی حیران کن جس پر اسمتھ کینیتھ کو سزائے موت دی گئی تھی۔ امریکی مبلغ نے اپنی اہلیہ کو اجرتی قاتلوں سے صرف اس لیے قتل کروایا تھا کیوں کی انشورنس سے ملنے والی رقم سے وہ اپنے قرضے ادا کرسکیں۔
پولیس کو جب اس بات کا ادراک ہوگیا اور قریب تھا کہ وہ مبلغ چارلس سینیٹ کو گرفتار کرلیتی اس نے حقیقت سامنے آنے کے خوف سے خود کشی کرلی تھی۔اسی طرح دو میں سے ایک اجرتی قاتل کو 2010 میں پھانسی دی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی عدالت نے سزائے موت پر عمل درآمد سے محض آدھے گھنٹے قبل رحم کی اپیل کو مسترد کردیا تھا اور سزائے موت نائٹروجن گیس کے ذریعے دینے کے فیصلے پر قائم رہی تھی۔
اس سے قبل بھی سپریم کورٹ نے فیڈرل کورٹ کے ذریعے مجرم کے وکیل کی نائٹروجن گیس سے سزائے موت پر رحم کی اپیل کی استدعا کو بھی مسترد کردیا تھا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائٹروجن گیس سے سزائے موت کو غیر انسانی فعل قرار دے رکھا ہے تاہم امریکی ریاستوں میسیپی، اوکلا ہاما اور الاباما میں نائٹروجن گیس سے سزائے موت کی منظوری دیدی گئی تھی۔