اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے نااہلی کیس میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔عدالت نے قاسم سوری کو اپنے دستخط کے ساتھ خود جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ سے بھی جواب طلب کرلیا ہے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قاسم سوری کی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قاسم سوری نے حکم امتناع لے کر پوری اسمبلی کو انجوائے کیا، اب کہہ رہے ہیں اسمبلی ختم تو کیس غیر موٴثر ہوگیا، کیا آپ نے سپریم کورٹ میں مقدمہ نہ لگوانے کیلئے کوئی حربہ استعمال کیا؟سپریم کورٹ میں جو ہاتھ گھس گئے ہیں کونسا مقدمہ لگے کونسا نہیں یہ سب اب ہم روک رہے ہیں۔
وکیل قاسم سوری نعیم بخاری نے کہا کہ میری نظر میں تو قاسم سوری کی نااہلی اور ان کے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا معاملہ اب غیر موثر ہو چکا، وکیل لشکری رئیسانی ریاض احمد نے کہا کہ قاسم سوری غیر قانونی طور پر عہدے پر براجمان رہے،قاسم سوری نے اسٹے پر عہدہ انجوائے کیا اور ان سے مراعات اور فوائد واپس ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟ ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا، وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے کہا تھا کہ قاسم سوری نے کوئی کرپٹ پریکٹس نہیں کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہائیکورٹ نے آپ کے این اے 265 میں انتخابات دوبارہ کرانے کا کہا، وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ میں نے تو استعفا دے دیا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ نے اپیل کیوں دائر کی؟ ۔وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2019 میں بلوچستان کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا ایسے کیسے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ معطل کیا؟۔آپ نے سپریم کورٹ سے اسٹے مانگا تو دیا گیا ہے۔اگر سپریم کورٹ استعمال ہو رہی تھی تو ہم اس غلطی کی تصحیح کرنا جانتے ہیں، اگر کچھ غلط ہوا تھا تو 2018 کا پورا الیکشن نکال کر دیکھیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ عہدہ انجوائے کیا اور چلے گئے، قاسم سوری نے استعفیٰ کب دیا؟۔
وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ قاسم سوری نے 16 اپریل 2022 کو استعفا دیا۔اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ نے اسمبلی توڑی تب بھی اسٹے پر تھے نا؟قاسم سوری نے غیر قانونی طور پر اسمبلی توڑی۔قاسم سوری کے بارے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی کارروائی کی تجویز دی گئی، کیوں نا قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کی کارروائی کی جائے، جس کسی نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی اس کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے قاسم سوری کا کیس مقرر نا ہونے اور اسٹے برقرار رہنے پر رجسٹرار کو نوٹس کرتے ہوئے تین ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے قاسم خان سوری کے حریف لشکری رئیسانی کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کو تین ہفتوں میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ بعد تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں این اے 265 میں قاسم سوری پر دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
بی این پی کے لشکری رئیسانی نے اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی این اے 265 سے کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے حلقہ میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی، جس پر الیکشن ٹربیونل نے الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ قاسم سوری نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن ٹریبیونل کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے انہیں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بحال کردیا تھا اور ری الیکشن کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔