تل ابیب : اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ میں قیدیوں کی رہائی کےبدلے جنگ بندی کی حماس کی شرائط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ “حماس کی طرف سے پیش کردہ ہتھیار ڈالنے کی شرائط” کو مسترد کرتے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ روکنےکے بدلے قیدیوں کی رہائی کے حوالےسے حماس کی تجویز کو قبول نہیں کرتے، جوہمیں نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، ہم اسےتباہ کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب تک 110 مغوی افراد کو واپس کر چکے ہیں اور ہم باقی یرغمالیوں کو جلد واپس کرنے کے لیے پرعزم ہیں، یہ جنگ کے مقاصد میں سے ایک ہے اور اس کے حصول کے لیے فوجی دباؤ بنیادی شرط ہے، ہم یرغمالیوں کی رہائی کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں، واضح رہے کہ میں ہتھیار ڈالنے کی ان شرائط کو مسترد کرتا ہوں جنہیں حماس نےپیش کیا تھا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ حماس نے تمام یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی جو تجویز پیش کی ہے اس میں اس نے جنگ روکنے اور تمام اسرائیلی فوجیوں کو غزہ سے واپس کرنے کی شرط رکھی ہے، اگر ہم اس شرط کو قبول کرلیتے ہیں تو اس سے اسرائیل کی سلامتی کا حصول ممکن نہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ جب تک غزہ میں حماس کی حکومت موجود ہے، اس وقت تک اسرائیل کی سلامتی خطرے میں رہے گی، اس لیے میں نے حماس کی طرف سے پیش کردہ تمام شرائط کو مسترد کردیا ہے۔
نیتن یاہو نے تمام محاذوں پر جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ “کسی بھی دہشت گرد کو استثنیٰ نہیں دیتے، چاہے وہ غزہ، لبنان، شام یا کہیں بھی ہو، غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانا چاہیے اور اسرائیل کے مکمل حفاظتی کنٹرول کے تابع ہونا چاہیے”۔
انہوں نے کہا کہ “میں نے ہفتے کو فون پر امریکی صدر پر بھی واضح کیا کہ ہم اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر جنگ روکنے کے لیے ہم اس موقف پر قائم ہے جو ہم نے شروع میں پیش کیا تھا۔ جب تک غزہ سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرہ ختم نہیں ہوتا اس وقت تک ہماری جنگ جاری رہے گی‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم مکمل فتح حاصل کرنے اور حماس کو ختم کرنے کے بعد یہ دیکھیں گے کہ غزہ میں دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والی کوئی جماعت نہیں بچی ہے”۔
نیتن یاہو نے کہا کہ وہ “بہت زیادہ بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ کے باوجود فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرنے کے اپنے موقف پر قائم رہیں گے، میرا اصرار وہی ہے جس نے کئی سالوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنایا، فلسطینی ریاست اسرائیل کو کے لیے ایک خطرہ ہے”۔
ادھر حماس نے شائع ہونے والی ایک دستاویز میں اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کے حوالے سے تصدیق کی، کہ آپریشن “طوفان الاقصیٰ” فلسطینی کاز کو ختم کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ضروری قدم اور قدرتی ردعمل تھا۔
خیال رہے کہ سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک فلسطینی شہادتوں کی تعداد 25ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ 62 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔