اسلام آباد:اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک روک دیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں مواد کو ناکافی قرار دیا تھا آپ نے میرا مائنڈ بہت کلئیر کردیا ہے۔ ہمارے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے اسٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کی ان کیمرہ کارروائی کے ٹرائل کورٹ کے عدالتی فیصلے کیخلاف بانی چئیرمین پی ٹی ائی کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ عدالت بڑی کلیئرہے سیکورٹی کے حوالے سے دیکھنا ہماری ڈومین نہیں ہے گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہو گا تو اوپن ہو گا ، اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ڈیکلیئرکر دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 25 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے ہیں جبکہ تین گواہوں پر جرح بھی مکمل ہوچکی ہے۔ جس پر ویڈیو لنک کے ذریعے بانی چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ دس گواہوں کے بعد ان کیمرہ ٹرائل شروع ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک یا دو فیملی ممبر کی موجودگی ہو تو اس کا مطلب ہے کلوز ٹرائل ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جس طرح کارروائی آگے بڑھائی جارہی ہے مجھے کچھ تحفظات ہیں ٹرائل ہونا چاہیے لیکن کلوز ڈور پروسیڈنگ کو عدالت نے دیکھنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیکشن چودہ کے تحت ان کیمرہ پروسیڈنگ کا حکمنامہ موجود ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تین حصوں میں تقسیم کر رہا ہوں 15 دسمبر سے 21 دسمبر تک 13 گواہوں کے بیانات ہوئے دو پر جرح ہوئی ، 21 دسمبر کے بعد گواہوں کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ ہوئے۔
جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ان کیمرہ ٹرائل تھا پھر اوپن ٹرائل ہو گیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 14 سے 25 گواہ تک میڈیا کی موجودگی میں بیانات ریکارڈ ہوئے۔ ریاست کا موقف ہے کہ تین ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہئیے تھے ان گواہان کے بیانات پندرہ دسمبر کو ریکارڈ کئے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بارہ دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوذڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں ، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا ، انہوں نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہیے تھا کہ جج صاحب تین گواہان کے لیے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نا اٹھیں کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے خراب ہو جاتا ہے۔
اٹارنی جنر ل پاکستان نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہو گی جو دفتر خارجہ کے سائفر سیکیورٹی سے جڑے ہیں۔چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفر سیکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں، ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے اہم آئینی ایشو ہے ہم اسکو دیکھیں گے۔عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ جن تین گواہوں پر جرح ہوئی اس کی تصدیق شدہ کاپی عدالت کو فراہم کی جائے۔ عدالت نے سائفر ٹرائل کا حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت گیارہ جنوری تک ملتوی کردی۔