غزہ :صیہونی فوج کی غزہ میں جارحیت جاری ہے ، اسرائیلی فوج کے جبالیہ اور خان یونس کے اطراف میں حملوں کے نتیجے میں ایک دن میں 166 افراد شہید جبکہ 344 زخمی ہو گئے۔
اسرائیلی فوج کے مختلف علاقوں میں حملوں سے فلسطینی شہداء کی مجموعی تعداد 21 ہزار سے تجاوز کرگئی جبکہ 54 ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں ۔
ہفتہ اور اتوار کے دوران اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر بد ترین بمباری کی اور زمین پر موجود فوج نے ٹینکوں سے گولے برسائے ہیں۔
غیر ملکی ٹرساں اداروں کے مطابق غزہ میں القسام بریگیڈ نے جبالیہ میں اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا ، حماس کے حملے میں اسرائیلی فوج کے میجر سمیت کئی فوجی مارے گئے۔
اہل غزہ پر مظالم کے باعث مغربی کنارے میں مسیحیوں کے مقدس مقام بیت اللحم میں کرسمس کی تقریبات بھی مؤخر کر دی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی طرف سے ایک بار پھرغزہ میں قحط کی وارننگ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھوک، ننگ اور قحط بچوں کی موت کا حقیقی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں بچوں اور خاندانوں کو اب فضائی بمباری اور زمینی گولہ باری کے ساتھ بھوک، پیاس اور شدید سردی کا سامنا ہے جو جنگ زدہ لاکھوں لوگوں کے لیے جان لیوا خطرات بنتے جا رہے ہیں۔
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں اسرئیلی فوجیوں کا جانی نقصان افسوسناک ہے، جنگ کی ہم بہت بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری فلاحی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی چابی امریکا کے پاس ہے اور غزہ میں جاری قتل عام اور عالمی قانون کی خلاف ورزیاں صرف امریکا ہی روک سکتا ہے۔
این جی او نے اپنے بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غزہ میں امداد کی قرارداد مشکلات کے سمندر میں قطرے کے برابر ہے، غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، اسرائیل کو غزہ کی امداد نہیں روکنی چاہیے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائیوں کے دوران شہریوں کا تحفظ یقینی بنائیں، غزہ کے جنگ زدہ علاقوں سے شہریوں کے محفوظ انخلا کی بھی اجازت دی جائے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 20 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں ، شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔