لندن: برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ گوانتاناموبے کا قیدی خود پر ہونے والے بہیمانہ تشدد پر برطانوی حکومت کے خلاف اپنے مقدمے میں انگریزی قانون کا استعمال کر سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ہونے والے حملوں کے بعد دنیا بھر سے گرفتار ہونے والے مشتبہ افراد کو گوانتاناموبے میں رکھا گیا تھا جہاں امریکی ایجنسی سی آئی اے قیدیوں کو غیر انسانی سلوک اور سفاکانہ تشدد کا نشانہ بناتی تھی۔
سی آئی اے کے تشدد کو جھیلنے والوں میں پہلا قیدی سعودی نژاد فلسطینی زین العابدین محمد حسین عرف ابو زبیدہ تھا۔ جسے 2002 میں پاکستان سے حراست میں لیا گیا تھا اور 2006 تک کیوبا میں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتانامو میں بغیر کسی مقدمے کے رکھا گیا تھا۔
ان چار برسوں میں دوران تفتیش ابو زبیدہ کو 83 مرتبہ واٹر بورڈنگ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی کئی دن زبردستی سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ 11 روز تک ایک تابوت نما بکس میں بند کیا گیا تھا۔
حراست کے دنوں میں ہی سی آئی اے کے انسانیت سوز تشدد سے ابو زبیدہ کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوگئی تھی۔
امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ابو زبیدہ نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ کبھی بھی القاعدہ کا رکن تھا یا وہ نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا لیکن اس کے باوجود سی آئی اے نے اسے 83 بار واٹر بورڈ کیا گیا دیگر جسمانی اذیتیں دی گئیں۔
ابو زبیدہ نے گوانتاناموبے سے رہائی کے بعد عدالت سے رجوع کیا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافی کا ذمہ دار برطانوی حکومت کو بھی ٹھہرایا ہے۔
عدالت میں دائر اپنے دعوے میں ابوزبیدہ نے مطالبہ کیا کہ تھائی لینڈ، پولینڈ، مراکش، لتھوانیا، افغانستان اور گوانتاناموبے میں سی آئی اے کی “بلیک سائٹس” میں مجھے زخم زخم کرنے، جھوٹے الزام میں بغیر مقدمے کے قید بھگتنےاور میرے معاملے میں غفلت برتنے پر برطانوی حکومت ہرجانہ ادا کرے۔
ابو زبیدہ نے اپنے دعوے میں یہ تو نہیں کہا کہ اسے برطانوی فوج نے گرفتار کیا یا سہولت فراہم کی لیکن ان کا یہ مؤقف بہت مضبوط تھا کہ برطانیہ کی ملکی اور بیرون ملک انٹیلی جنس ایجنسیوں MI5 اور MI6 کو معلوم تھا کہ کہ سی آئی اے مجھے بلاجواز اور غیر قانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے جس میں قتل یا معذور ہوسکتا ہوں۔
برطانیہ کی حکومت نے اس دعوے کے جواب میں قومی سلامتی کا جواز بناتے ہوئے کہا تھا کہ نہ تو اس بات کی تردید اور نہ اعتراف کرسکتے ہیں کہ ابو زبیدہ کو کہاں کہاں رکھا گیا تھا اور کیا سلوک کیا گیا۔
برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ جن چھ ممالک میں بقول ابو زبیدہ کو رکھا گیا تھا وہاں کے قوانین کا اطلاق کے مطابق اس کیس کو دیکھنا چاہیے تاہم آج عدالت نے حکومتی موقف کو رد کرتے ہوئے ابوزبیدہ کو برطانوی قوانین کے اطلاق کا جواز فراہم کردیا۔