اسلام آباد:وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا۔شیخ رشید کی درخواست واپس لینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم خود کے ہی دشمن بن چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کمیشن اگر کسی کو بلائے وہ نہ گیا تو گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے۔۔ابصار عالم نے کمیشن پر تحفظات کا اظہار کردیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے وزیراعظم مس کنڈکٹ پر آرمی چیف کیخلاف کارروائی کا اختیار بھی رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے شیخ رشید احمد کی نظر ثانی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں کوئی ہمت نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے؟نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا۔۔۔اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جلاوٴ گیراوٴ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں۔دوبارہ موقع ملے تو کیاپھر ملک کی خدمت کریں گے؟ جب دل چاہیے جلاو گھیراو، سڑکیں بند کرا دو۔جب کھڑے ہونے کی باری آتی ہے تو سب بھاگ جاتے ہیں۔۔۔ ہم خود کے ہی دشمن بن چکے ہیں۔۔ ان ریمارکس پر جب شیخ رشید نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس پاکستان نے انھیں روکتے ہوئے کہا عدالت آپکے وکیل سے مخاطب ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا یہ کمیشن اس معاملے سے ڈیل کرنے کے قابل ہے؟ چیف جسٹس نے کہا یا کمیشن آنکھوں میں دھول جھونک کے مترادف ہوگا یا نیا ٹرینڈ بھی بنا سکتا ہے۔ابصار عالم نے کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ کیا دو ریٹائرڈ افسران سابق ڈی جی آئی ایس آئی،چیف جسٹس یا وزیر اعظم کو بلا سکیں گے۔
جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ کمیشن جیسے بولائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتاہے، ہم امید سے ہیں ویسے بھی دنیا امید پر قائم ہے، پہلے شک نہیں کر سکتے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے ،کوئی استثنی نہیں دیا گیا۔عدالت نے کیس کی سماعت بائیس جنوری تک ملتوی کردی۔