اسلام آباد ہائیکورٹ نے آفیشل سیکرٹری کی خصوصی عدالت کو چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل سے روک دیا۔ جیل ٹرائل سے متعلق تمام ریکارڈ2دن میں طلب کرلیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا بتائیں کب کن حالات میں کسی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوا کہ جیل ٹرائل ہو گا؟ خاندان کے چند افراد کو سماعت میں جانے کی اجازت کا مطلب اوپن کورٹ نہیں ، جس طرح سے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی گئی اسے بھی اوپن کورٹ کی کارروائی نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کی منظوری دی۔ عدالت نے کہا وہ نوٹیفکیشن ہم دیکھیں گے کہ اس میں کیا لکھا ہے ؟ جیل ٹرائل ہو گا تو یہ غیرمعمولی ٹرائل ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ غیرمعمولی ٹرائل نہیں صرف جیل ٹرائل ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا ہم جاننا چاہتے ہیں ایسے کیا غیر معمولی حالات تھے کہ یہ ٹرائل اس طرح چلایا جارہا ہے؟ بادی النظر میں جیل ٹرائل کے تینوں نوٹیفکیشنز ہائیکورٹ کے متعلقہ رولز کے مطابق نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہامیں تمام متعلقہ اداروں سے ریکارڈ لے کر عدالت کے سامنے رکھ دوں گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا پانچ گواہ اس وقت بھی جیل میں بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے موجود ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ نے دو دن پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی، اس کی کیا وجوہات تھیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منظوری سے پہلے ہونے والی عدالتی کارروائی کا سٹیٹس کیا ہو گا؟ریکارڈ کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی ایگزیکٹو نے کی ، چیف جسٹس سے رائے لی گئی لیکن یہ پراسیس ایگزیکٹو نے شروع اور مکمل کیا۔
جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر مزید سماعت 16 نومبر کو ہو گی۔