اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کےلیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہے، البتہ حکومت کےلیے ہو سکتی ہے۔تاہم جو مرضی چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخار چوہدری جیسا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی نے بیٹ رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے لیے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں، البتہ حکومت کے لیے ڈیڈ لائن ہوسکتی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے، اس کے باوجود اتفاق رائے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے ، ہماری کوشش تھی کہ مولاناسمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جے یو آئی ( ف ) نے آئینی ترامیم سے متعلق اپنا ڈرافٹ نہیں دیا، جب ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے اور جے یو آئی سے بات چیت کے بعد جو صورتحال بنے گی وہ ترمیم لائیں گے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ عدالتوں کا چھٹی کے دن آرڈر آیا جس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ ہم عدالتی اصلاحات اور صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پر مولانا مان گئے تھے، انہوں نے کہا کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 8اور 51 پر ترمیم لانا چاہتی تھی لیکن پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے انکار کر دیا۔
تحریک انصاف کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان اور اس کی جماعت کو ہر ایشوپر موقع دیا لیکن انہوں نے غیر سنجیدگی دکھائی، عمران خان اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ عمران آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ مجھے تو عمران کا کوئی سیاسی مستقبل روشن نظر نہیں آتا، ہم نے سیاسی اتفاق رائے کےلیے کمیٹی بنائی پی ٹی آئی نے اس کا بھی بائیکاٹ کردیا۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ جو مرضی چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخار چوہدری جیسا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں قائم ہوں اس سے عوام کو فوری ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اعلی عدالتوں میں تقرریاں عدلیہ ، پارلیمنٹ اور وکلا کی متناسب نمائندگی کے ذریعے ہونی چاہیئں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ جسٹس منیب نے 63Aکے فیصلے میں اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک نیب ہوگا ملک میں سیاسی انجنئیرنگ ہوتی رہے گی۔