لاہور: اسپین کی قرطبہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے پاکستانی طالب علم نے مسلسل دوسری مرتبہ دنیا کے سرفہرست دو فیصد سائنس دانوں میں جگہ بنا کر نیا سنگ میل حاصل کرلیا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بھی ہیں۔
نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں شہزاد احمد ہرل نے بتایا کہ والدین کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف لاہور کے اساتذہ کی سرپرستی میں محنت کی اور اسی وجہ یہ اعزاز ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خواب 2023 میں پورا ہوا تھا جب پہلی مرتبہ یہ ایوارڈ ملا تھا لیکن ابھی مزید کام کرنا ہے، 2015 بی ایس شروع کیا تھا اور 2017 میں کچھ منفرد کرنے کا سوچا اور اس وقت ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پر تجربہ کیا جو کامیاب ہوا، اس کے بعد ویسٹ دیکھنا شروع کیا تاکہ بہتری لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بیٹریز کے میٹریل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ کے دوران سیلنگ فینز کے کیپسٹرز باربار تبدیل کرنے پڑتے تھے، اس سے میں نے نینو ٹیکنالوجی اپنانے کا آئیڈیا لیا جب اس کا معیار زیادہ اچھا تھا تو اس کو مزید وسعت دی۔
فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے شہزاد احمد ہرل پی ایچ ڈی کے دوران یہ اعزاز حاصل کرنے والے واحد پاکستانی اسکالر ہیں، اپنے کیریئر میں انہوں نے امپیکٹ فیکٹر ایک ہزار سے زائد کا ہدف حاصل کرنے والے 100 سے زائد سائنسی پرچے تحریر کرچکے ہیں۔
شہزاد احمد ہرل نے نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں 9 سائنسی تحقیق پر مبنی کتابوں کی ادارت بھی کی۔
انہیں 2023 میں رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کی رکنیت سے بھی نوازا گیا تھا، اس سے قبل 2021 میں انہوں نے سعودی کیمیکل سوسائٹی سے نوجوان سائنس دان کا ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔
مزید برآں شہزاد احمد ہرل نے قومی اور بین الاقوامی جامعات میں لیکچرز بھی دیے ہیں، ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ، بھارت، انگلینڈ، کوریا، ملائیشیا، اسپین، فرانس اور اٹلی شامل ہیں، اس کے علاوہ فرانس اور اٹلی میں وزیٹنگ سائنس دان کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔