اسلام آباد:سلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں رحم کی اپیل کا مسودہ پاکستانی حکومت کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وکیل کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے کوشش کی افغانستان بھی گئے۔ حکومتی حکام میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کہے ہم اسمتھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی حکومت کو خوف کیا ہے ؟۔
امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے 5 ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا کی جسیمسترد کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کردی۔
ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کیس کی سماعت میں وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلائیو اسمتھ کو ایک ہفتے میں ڈاکٹر عافیہ کی رحم کی اپیل کا ڈرافٹ پاکستانی حکومت سے شئیر کرنے کا حکم دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وکیل کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے کوشش کی افغانستان بھی گئے۔ حکومتی حکام میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کہے ہم اسمتھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی حکومت کو خوف کیا ہے ؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت مستقل بنیادوں پر فوزیہ صدیقی کو سپورٹ کر رہی ہے۔ جب کوئی پالیسی لیول کا فیصلہ کرنا ہو تو اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ رحم کی اپیل کی پیٹیشن وائٹ ہاوٴس کو لکھ رہے ہیں یا نہیں یہ جواب دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہے۔ ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے جو عدالت کے سامنے رکھنی ہے۔ امریکا میں موشن امریکی وکیل کے ذریعے فائل کی جا سکتی ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے استفسار کیا کہ اگر امریکی وکیل کہے کہ موشن فائل کی جا سکتی ہے تو پھر حکومت کرے گی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پھر اس حوالے سے پالیسی فیصلہ کیا جائے گا۔ جسٹس سردار اعجاز نے کہا کہ آپ یہ ہمت کیوں کررہے ہیں کہ عدالت کو کہیں حکومت فائل نہیں کرنا چاہتی۔ مسٹر اسمتھ بطورامریکی وکیل وہاں پر موشن فائل کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ امریکی صدر کو رحم کی اپیل کا ڈرافٹ ہمارے ساتھ شئیرکیا جائے۔ رحم کی اپیل کا ڈرافٹ دیکھ کر ہی حکومت کی طرف سے پالیسی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے لیے وقت چاہئیے عدالت دو یا تین ہفتوں کا وقت دے۔ عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کردی۔