اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیوی کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا۔
عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں۔ حق زندگی، فیئر ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست کے زیر سماعت ہونے تک ملزمان کی سزائے موت پر عمل درآمد نا کیا جائے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ چیف آف نیول اسٹاف کا موقف تین ہفتوں میں سربمہر لفافے میں جمع کرایا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے نیوی کے سا بق افسران کی کورٹ مارشل میں سزائے موت کے خلاف درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاران کے مطابق انہیں جنرل کورٹ مارشل کر کے سزائے موت سنائی گئی، جنرل کورٹ مارشل کے دوران وکیل کی معاونت کی اجازت نہیں دی گئی۔
ملزمان سے شواہد اور کورٹ آف انکوائری کی دستاویزات بھی شیئر نہیں کی گئیں۔ وکیل کے مطابق ان دستاویزات تک رسائی کے بغیر سزائے موت کیخلاف اپیل اور نظرثانی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔ وکیل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزمان کے وکلاء کو دستاویزات تک رسائی کا حکم دیا۔ وکلاء کو دستاویزات تک محدود رسائی فراہم کی گئی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے مطابق دستاویزات تک رسائی دینے کا اختیار چیف آف نیول اسٹاف کے پاس ہے۔ چیف آف نیول اسٹاف سمجھتے ہیں کہ دستاویزات تک رسائی سے ریاست کے مفادات کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
عدالت نے کہا سوال یہ ہے کہ ریاست کے مفاد کو ایک شہری کے حق زندگی سے کیسے بیلنس کرنا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 اے شہریوں کو زندگی جینے کا حق اور فیئر ٹرائل کا حق فراہم کرتے ہیں۔ حق زندگی، فیئر ٹرائل سے متعلق سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست کے زیر سماعت ہونے تک ملزمان کی سزائے موت پر عمل درآمد نا کیا جائے۔
فریقین چیف آف نیول اسٹاف کا موقف بمع وجوہات عدالت میں جمع کرائیں۔ بتایا جائے کہ چیف آف نیول اسٹاف کو دستاویزات تک رسائی ریاست کے مفادات کے برخلاف کیوں لگتا ہے؟ چیف آف نیول اسٹاف کا موقف تین ہفتوں میں عدالت میں سربمہر لفافے میں جمع کرایا جائے۔
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ کیس کو دوبارہ سماعت کیلئے یکم جولائی 2024 کو مقرر کیا جائے۔ پاک بحریہ کے سابق افسران ارسلان نذیر ستی، محمد حماد، محمد طاہر رشید، حماد احمد خان اور عرفان اللہ نے سزائے موت کیخلاف اپیلیں دائر کررکھی ہیں۔