اسلام آباد: سینیٹ اجلاس میں ارکان نے عدلیہ و ججز پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سلیکٹو جسٹس اور توہین عدالت میں تفریق کے الزامات عائد کردیے۔
قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا تاہم بعدازاں سینیٹر شیری رحمان نے ایوان کی کارروائی کو چلایا۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا نے کل ایک اہم نکتہ اٹھایا، ایسا لگتا ہے لاکھوں ووٹ لینے والے اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ سب کی عزت ہے ، آئین صرف ججوں کی عزت کی بات نہیں کرتا بلکہ اراکین پارلیمنٹ کی عزتوں کی بات بھی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی حق نہیں کہ وہ ہماری عزتیں اچھالیں، پارلیمان سے سپریم کوئی ادارہ نہیں ہے، آپ کی عزتیں ہماری عزتیں ہیں، اگر آپ کی جانب سے سلیکٹو جسٹس ہوگی تو لوگ آواز اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ توہین ہے کیا ؟ کس کی ہوسکتی ہے اس پر بھی وضاحت ہونی چاہیے، یہاں توہین عدالت میں بھی تفریق کی جاتی ہے ، سلیم کوثر نے کئی دہائیوں پہلے کہا تھا، تم نے سچ بولنے کی جرات کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی، واضح کرنا چاہتا ہوں اس ایوان کا نمائندہ اپنے لوگوں کی پراکسی ہے۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ایک چیف جسٹس اٹھتے ہیں ون کانسٹیٹیوشن ایونیو میں تھرڈ پارٹی انٹرسٹ ہوگیا تھا، ایک چیف جسٹس نے کہا نسلہ ٹاور کو گرا دو کیونکہ یہ غریب لوگوں کی جائیداد بن گئی تھی، ایک تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کو حق دیا کہ وہ آئین کو دوبارہ لکھ دیں، کیا ہمیں یہ آزادی ہے جیسا ایک چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک جج اگر لاشعوری طور پر کوئی غلط فیصلہ دے دے تو بعد میں اسے درست کرلے۔
انہوں نے زور دیا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب ہونا چاہیے، یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ، ہمارے بھی تیس کارکن چار سال لاپتہ ہونے کے بعد واپس آئے کوئی اس کا نوٹس لینے کو تیار نہیں، ان کی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب ہماری پارٹی کو جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں تھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی، سینیٹر چوہدری اعجاز کے کئی مرتبہ پروڈکشن آرڈر جاری کئے، اس ایوان میں بارہ لوگوں کی موجودگی میں الیکشن میں تاخیر کا بل پاس کیا گیا تو کیا یہ پارلیمنٹ کی عزت تھی؟ ایک چیف جسٹس نے کہا الیکشن کروائے جائیں تو اس پر عمل نہیں کیا گیا، ایک جج کے پاس کون سی فورس ہوتی جو وہ اپنے فیصلے پر عمل کرائے، پارلیمنٹ کی توقیر کا آئین کے حوالے سے تحفظ کرنا بہت ضروری ہے، اس کو ذاتی ایجنڈا نا بنایا جائے، جب ذاتی ایجنڈوں پر بات ہوتی ہے تو ہمیں طیش آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس تو قاضی فائز عیسی صاحب نے دیا ہے ان کا نام کیوں چھپایا جارہا ہے، اگر لاپتہ افراد کی بات کی گئی ہے تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم لاپتہ افراد کی بات کریں، اگر کسی جج نے لاپتہ افراد کی بات کی ہے تو ہمیں اس جج کی حمایت کرنی چاہیے، اگر ایک جج نے ہفتے کے روز عدالت کھول کر نواز شریف کی صحت کی ضمانت مانگی ہم نے اس وقت بات کیوں نہیں کی، توہین کا قانون ہے تو ہمیں بیٹھ کر اس پر قانون سازی کرنی چاہیے، یہاں بیٹھ کر ذاتی ایجنڈے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔
سینیٹر طلال چوہدری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری مہذب دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا ہے، کسی مہذب دنیا میں عدالتیں کسی عام شہری کو بھی نوٹس نہیں کرتیں، آئین بنانے والوں کو سزا دینے سے نہیں آئین توڑنے والوں کو سزا دینے سے عدلیہ کا وقار بڑھے گا، پارلیمنٹ کی توہین کب نہیں ہوئی، وزیراعظم کو پھانسی کو لٹکایا گیا، کسی شہزادی کو اتنی جلدی نکالا نہیں جاسکتا جتنی جلدی وزیراعظم کو تاحیات نکال دیا جاتا ہے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ عدالت اپنا وقار اپنے فیصلوں سے بلند کرے، عدالتیں اپنی کارکردگی سے وقار بہتر کریں، اگر آپ سسلین مافیا، گارڈ فادر اور پراکسی کے الفاظ استعمال کریں گے تو کون برداشت کرے گا، چیف جسٹس صاحب میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر، میں بول پڑا تو عدالت میں مارا جاوٴں گا۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ تاثر مل رہا ہے یہ اجلاس بلانے کا مقصد ایک ہی ہے، ایک سپریم کورٹ اور کچھ ہائی کورٹس کے ججز آج بھی نشانے پر ہیں، شاید وجہ یہ ہے کہ کوئی فیصلہ یا ریمارکس نہ آئے، لگتا ہے کچھ ججز کیخلاف ایک پراکسی شروع ہوئی ہے اور ہم بھی اسی کیساتھ چل رہے ہیں، ایسے محسوس کروانا کہ یہ ادارہ کسی اور ادارے سے برتر ہے، محسن اختر کیانی، بابر ستار اور اطہر امن للہ کو نشانہ بنایا گیا، محسن اختر کیانی لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھا رہے، ہم میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھائے، بابر ستار کا مسئلہ بھی آپ کو پتہ ہے کیا چیز چل رہی ہے، اس طرح سے ججز کے ساتھ نا کریں، اطہر من اللہ صاحب کا گناہ کیا ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں
انہوں نے کہا کہ کل طلال چوہدری صاحب کیساتھ اگر زیادتی ہورہی تھی تو اس طرح نا کیا جائے، اتنے بڑے ادارے کو اس طرح سے خراب نا کیجئے، شاید اپوزیشن والے یہ بات کریں تو شاید قابل ہضم ہو، پورا بلوچستان اس وقت جل رہا ہے، اس سے بڑے ایشو موجود ہیں اس ملک میں ان پر بات کی جائے، یہ جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک نہیں ہورہا۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے بھی کہا کہ لگتا ہے اس اجلاس کو خاص اس مقصد کیلئے بلایا گیا ہے کہ ہم اس ایوان سے عدلیہ، ججز کو جواب دہ بنائیں، آج ایک دفعہ پھر پارلیمان استعمال ہورہا ہے، جو استعمال کررہے اس کی بات نہیں ہورہی، یہ ملک اس لئے نہیں بنا کہ بندوق والے حکمران ہوں بلکہ آپ محافظ ہیں، قصہ مسنگ پرسنز سے شروع ہوا اور اختتام میں پارلیمان اور عدلیہ کو آمنے سامنے ہونا پڑا، جوڈیشری بات کرتی ہے ایک آئی ایس آئی کے کرنل کی تو تکلیف کہیں اور سے اٹھتی ہے، اس طرح بات ہوگی تو پراکسی نہیں کہا جائے گا تو پھر کیا کہا جائے گا؟
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد غزہ بچاوٴ تحریک چلا رہے ہیں ، ان کی تحریک کے کارکنوں پر گاڑی چڑھائی گئی ہے اور دو افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔چیئرپرسن شیری رحمان نے کہا کہ اس معاملے پر وزیرداخلہ سے رپورٹ طلب کرلیتے ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ حکومتی نمائندے کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں اداروں میں ٹکراوٴ کی صورتحال نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ایک متحمل اور بیلنسڈ جج ہیں، آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں آکر جو مرضی کہہ دے، پارلیمان ایک سپریم ادارہ ہے، میں امید رکھتا ہوں چیف جسٹس شفافیت کو سامنے رکھ کر کیس پر فیصلہ کریں گے، اس معاملے کو سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیجا جائے تاکہ وہ اس کی رپورٹ تیار کرے اور چئیرمین سینیٹ کو وہ رپورٹ دیں، چئیرمین سینیٹ اس پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹر فیصل واوڈا کا معاملہ سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ سینیٹ سیکرٹریٹ اس معاملے پر اپنی رپورٹ بناکر چیئرمین سینٹ کو ارسال کرے۔
بعدازاں اجلاس جمعے کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔