اسلام آباد:سپریم کورٹ نے نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو اڈیالہ جیل میں ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کرنے کی اجازت دے دی، عدالت نے قرار دیا کہ وفاق اور پنجاب حکومت اڈیالہ جیل میں عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت فراہم کرے ۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی. عدالت نے نیب پر کیے گئے سالانہ اخراجات، نیب کی سالانہ ریکوری کی تفصیلات طلب کر لیں، عدالت نے قرار دیا کہ بتایا جائے نیب کیسز میں کتنے سیاست دان جیل میں گئے ؟ کس سیاستدان پر کیا الزام تھا کتنے سیاست دان بے قصور ثابت ہوئے؟ عدالت نے قرار دیا کس سیاسی جماعت کے کتنے سیاستدان جیلوں میں قید ہوئے اس کی تفصیل بھی بتائی جائے۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان مرکزی کیس کے درخواست گزار ہیں انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے سہولت دی جانی چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالتی حکمنامے میں بذریعہ وکیل نمائیندگی کا ذکر ہے کیا تمام مقدمات میں ایسے ہی تمام سائیلین کو ویڈیو لنک کے ذریعے نمائند گی ملنی چاہیے؟۔یہ کیس قانون کی شقوں میں ترامیم کے متعلق ہے، اگر ہم خود کو دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنے چاہتے ہیں تو چلیں پھر ٹھیک ہے، ہم مشاورت کر کے دوبارہ واپس اتے ہیں۔ سماعت میں پانچ منٹ کا وقفہ کیا گیا
مختصر وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے بذریعہ ویڈیو لنک اڈیالہ جیل سے عمران احمد خان نیازی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی۔
نیب سے متاثرہ انفرادی شخص کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے دلائل نے کہا نیب ترامیم کے خلاف دائر کی گئی مرکزی آئینی درخواست قابلِ سماعت ہی نہیں تھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس زیر سماعت ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فاروق ایچ نائیک کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا نیب ترامیم کیس لارجر بینچ کو سننا چاہیے تھا، نیب ترامیم مختلف ہائیکورٹس میں بھی چیلنج تھیں آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت کوئی درخواست اس وقت قابل سماعت نہیں ہو سکتی جب معاملہ ہائیکورٹس میں زیر التوا ہو. چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے جب مارشل لاء لگتا ہے نیب قانون منٹوں میں بن جاتا ہے اور جب جمہوری حکومت میں کوئی قانون بنے تو مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا نیب ترامیم کو کالعدم قرار دئیے جانے کا اکثریتی فیصلہ درست نہیں تھا تحریکِ انصاف دور میں جب عمران احمد خان وزیر اعظم تھے اس وقت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون میں ترامیم کی گئیں،عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد نئی حکومت نے بذریعہ پارلیمنٹ صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے کی گئی ترامیم کو قانون میں برقرار رکھا ۔
مرکزی درخواست گزار عمران خان نے نا ہی نیک نیتی کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا نا ہی وہ نیب ترامیم سے متاثرہ فریق تھے، عدالت نے حکم نامے کی نقل ایڈووکیٹ خواجہ حارث اور عمران احمد خان نیازی کو بھجوانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 مئی ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔