اسلام آباد: اسلام ہائیکورٹ کے ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آگئیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جب کوئی جج حلف لیتا ہے تو کسی بھی قسم کا دباؤ نہ لینے کی قسم کھاتا ہے، جج کے حلف میں لکھا ہے کہ وہ نہ دباؤ میں آئے گا نہ انصاف کی فراہمی میں ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی مداخلت برداشت کرے گا۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی معاملات میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہے، ایسا کوئی ضابطہ نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دیتا ہو، صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ججز کے خط کے ضابطہ اخلاق کی نمائندگی کرتی ہے۔
ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کی روک تھام کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے، جبکہ پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک اوپن سیکرٹ ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، اور بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر سے جان سے دھمکیاں ملیں۔
ججز کو دھمکیاں ملنے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگری کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جبکہ ججز کو دھمکی ملنے کے معاملات اعلیٰ سطح پر بھی اٹھایا کیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے مزید کہا ہے کہ یہاں ہم ایسے فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے سیاسی انجینئرنگ کی حوصلہ شکنی کی گئی، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایجنسیوں کی سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت کی ممانعت کی گئی۔
پشاور ہائیکورٹ نے اپنی تجاویزمیں کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے، اور ہائیکورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے،اگر ایک جج کو دھمکی ملتی تو اسے متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرنا چاہیے۔
ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ تجاویز کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل اور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو بھیجی جانی چاہیے، اور چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو متاثرہ جج کی شکایت پر فوری ایکشن لینا چاہیے، اور جج کو ملنے والی دھمکی کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
اگر ادارے ایسے معاملات میں تعاون نہیں کرتے تو پھر اسے جوڈیشل سائیڈ پر لارجر بینچ کے ذریعے دیکھنا چاہیے، اور متعلقہ لارجر بینچ کو ان اداروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی سمیت دیگر احکامات جاری کرنے چاییئں۔
تجاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ ( ججز کو دھمکی دینے میں ) ملوث خفیہ اداروں کے افسران کے خلاف فیصلہ دیا جانا چاہیے، اور چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو شکایت موصول ہونے کے فوری بعد اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، اگر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انتظامی کمیٹی کے سامنے سات روز میں معاملہ رکھنا چاہیے۔
پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز کے مطابق اگر انتظامی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس معاملے کی مزید انکوائری ہونی چاہیے تو مجوزہ طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے، اور اس بابت ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترمیم ہونی چاہیے۔
تجاویز کے مطابق اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کو ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دھمکی ملتی ہے یا مداخلت ہوتی ہے تو اسے فوری طور پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کو تحریری شکایت کے ذریعے آگاہ کرنا چاہیے، اگر چیف جسٹس یا انتظامی کمیٹی کے کسی ممبر جج کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پھر ہائیکورٹ رولز کے تحت اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس سے تجاویز طلب کی تھیں جس پر پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔