اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہر پھینک دینا چاہیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور نے کہا کہ ہماری جوڈیشری میں بھی کالے دھبے موجود ہیں ہماری جوڈیشری میں بہت سارے ہزاروں فیصلے ہرسال ہوتے ہیں اس میں سے کچھ فیصلے تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں لیکن میں جوڈیشری کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں یہ بہت سارے فیصلے کرکے کام بھی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں دو ملین سے زائد کیسز زیر التواء ہیں اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے میں دنیا میں ہماری جوڈیشری کے اس نمبر کو بہتر نہیں کہوں گا میں اگر کسی ایڈینشل سینش جج کو کہو کہ آپ کو کون سے کیس میں مسئلہ ہے تو ہمارے جج ہمیں نہیں بتاسکتے ہمیں جوڈیشری سسٹم کو ڈیٹا اینالائسز روم بنانے ہوں گے ہمیں اپنی جوڈیشری میں الارم بنچ بنانے چاہئیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ہمارے ججز ہمیں بتا ہی نہیں سکتے کہ کون سا کیس کس مرحلے میں ہے، ہمیں جوڈیشری میں ایسی ٹیکنالوجی لانی ہے جس میں ڈیٹابیس موجود ہو، ججز اپوائنٹ منٹ پراسس کو بہتر بناسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز جو لگائے جاتے ہیں اسے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے جج سسٹم کو اٹھا بھی سکتا ہے اور بٹھا بھی سکتا ہے، جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہر پھینک دے دینا چاہیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے ہمیں کرپشن پر اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنی مرضی کا جج لگائیں محض فیصلہ لینے کے لیے، میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے پریکسٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے لیے بہترین اقدامات کیے، ہمارے سسٹم کو مافیاز بھی کنٹرول کر رہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک بہترین جانب جانے کا ذریعہ بنا ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ہمیں دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہے، اے ڈے آر سینٹر جو مصالحتی کردار ادا کرتا ہے وہ عدالتوں میں مزید قائم کرنے ہیں، 30 سے 40 فیصد مصالحتی سینٹرز نے کیسز کو نمٹایا، دنیا میں مصالحتی سینٹرز 90 فیصد کام کر رہے ہیں، پاکستانی عدالتوں میں روزانہ 70 ہزار کیسز دائر ہو رہے ہیں، پاکستان کی پاپولیشن 231 ملین ہے اس طرح 90 جج فی ملین آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برازیل بجٹ کا سب سے زیادہ جوڈیشری پر خرچ کرتا ہے، ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ 80 فیصد زیر التواء کی وجہ ایڈجرمنٹ ہے، جب بغیر کارروائی کے کیس کی تاریخ لے لی جائے تو پھر یہیں عالم رہے گا۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ بارز ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ کیسز کے ایڈجرمنٹ کو آپ خود بھی دیکھیں، بارز بھی اس کی بہت بڑی وجہ بنتی ہے، آپ کو اندازہ ہے ہی نہیں کہ ایک سائل درخواست گزار کو کیا قیمت عدالت میں آنے کے لیے ادا کرنی پڑتی ہے، سائلین اپنی بھیڑ بکریاں بیچ کر کیس لڑنے کے لیے آتے ہیں، پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک اچھا وکیل مہیا ہوتا ہے۔