نیویارک: امریکا کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی، نیویارک کے شہر بروکلین میں ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے ، جن میں خود یہودی طلبہ بھی شامل تھے۔
مظاہرین نے غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی پولیس نے یونیورسٹیز میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہرین کی گرفتاریاں کیں اور ان کے داخلے بھی معطل کروادیے گئے، تاہم اس کارروائی کے نتیجے میں اس احتجاج میں مزید شدت آگئی۔
گزشتہ روز بروکلین اسٹریٹ میں ایک بڑا احتجاج ہوا جس پر نیویارک کی پولیس نے دھاوا بول دیا اور متعدد طلبہ کو گرفتار کیا جنہوں نے سڑکیں بند کرکے ٹریفک جام کردیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ امریکا میں بڑھتے ہوئے مظاہرے غزہ جنگ میں اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی پر شہریوں کے گہرے عدم اطمینان اور بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کو فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو خود کو ایک خود ساختہ “صیہونی” قرار دیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں میں احتجاج اب مظاہروں سے آگے بڑھ کر دھرنا کیمپوں میں تبدیل ہوگیا ہے جس میں مختلف پس منظر کے طلباء اور اساتذہ شریک ہیں۔ جن میں مسلم ہی نہیں بلکہ یہودی بھی شریک ہورہے ہیں۔ ان دھرنوں میں درس و تدریس، اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادات اور موسیقی کی پرفارمنس بھی ہوتی ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے، ییل، ایمرسن اور یونیورسٹی آف مشی گن سمیت امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں دھرنے شروع ہوچکے ہیں اور احتجاجی کیمپس لگادیے گئے ہیں۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے پولیس فورس کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تعلیمی آزادی مجروح ہورہی ہے۔
ایک طرف انسانی حقوق کے حامیوں نے ان گرفتاریوں کو اظہار رائے کی آزادی پر قدغن قرار دیا وہیں دوسری طرف امریکی کانگریس کے نمایاں ریپبلکن اراکین سمیت مظاہروں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کچھ مظاہرین کی جانب سے یہود دشمنی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
غزہ جنگ کے مسئلے پر امریکا میں شدید تقسیم پیدا ہوگئی ہے جس کا مظاہرہ کولمبیا کی سڑکوں اور عوامی مقامات پر دیکھنے میں آرہا ہے جہاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے حامی مظاہرین کے درمیان بحث و تکرار اور ہاتھ پائی تک ہورہی ہے۔ اس وجہ سے کانگریس کے ریپبلکنز ارکان نے جوبائیڈن سے یہودی طلباء کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔