کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ اب تو وزرا نے حلف بھی اٹھا لیے الیکشن کمیشن کیوں تعاون نہیں کررہا۔
سندھ ہائیکورٹ نے ریٹرننگ افسران کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات کی عدم فراہمی کیخلاف این اے 242، 243 اور پی ایس 117 سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فارم 33، 44، 45، 46، 47، 48 اور 49 درخواستگزار کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ریٹرننگ افسران کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات کی عدم فراہمی کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تو وزرا نے حلف بھی اٹھا لیا، الیکشن کمیشن کیوں تعاون نہیں کررہا ہے؟ الیکشن سے متعلق جو بھی اعتراضات ہیں سب سے پہلے الیکشن ٹریبونل فیصلہ کرے گا۔ براہ راست آئینی درخواست دائر کرنے کے بجائے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ ریٹرننگ افسران کے دفاتر کو تالے لگے ہیں، الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ پر بھی ابھی اتک ان حلقوں کے فارم 27 اپلوڈ نہیں کیے، سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ تصدیق شدہ فارم کے حصول کا اصل فورم ریٹرننگ افسر یا صوبائی الیکشن کمیشن نہیں بلکہ الیکشن کمیشن پاکستان ہے۔
درخواست گزاروں نے تصدیق شدہ فارمز کے حصول کے لیے آج تک اصل فورم سے رجوع ہی نہیں کیا۔ ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل نے سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر این اے 242 کے فارم 47 دکھائے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ قانون تو پڑھ لیا جائے، کیا اس موقع پر آئینی درخواست دائر کی جاسکتی ہے؟ عدالت نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق درخواستگزاروں کو تصدیق شدہ دستاویزات فراہم کرے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو فارم 33، 44، 45، 46، 47، 48 اور 49 درخواستگزار کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے این اے 242، 243 اور پی ایس 117 سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی درخواستیں نمٹادیں۔