اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو ساڑھے 9 بجے سنایا جائا تھا تاہم اس میں تاخیر ہوگئی اور رات سوا گیارہ بجے کے بعد چیف جسٹس نے محفوظ فیصلہ سنادیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا، حامد خان، بیرسٹر گوہر، اکبر ایس بابر کے وکیل اور پی ٹی آئی کی خاتون بانی رکن سمیت الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیے۔ کئی گھنٹوں تک جاری دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی پاور ہے نہ ہی کوئی دائرہ اختیار کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لے اور ان کو کالعدم قرار دے، الیکشن کمیشن کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی مبینہ بے ضابطگی پر نشان الاٹ نہ کرے۔
انہوں نےمزیدکہا کہ آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے اس لیے وہ آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل نہیں کرسکتا، تحریک انصاف کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا، ہمارے پاس دس روز تھے، اگر بیس دن میں الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن ہماری سیاسی جماعت کو سیاست سے ہی باہر کر دیتا، انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ہمارے ممبر ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں بے قاعدگی کی نشان دہی نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، انٹرا پارٹی الیکشن کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ممبران کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا یا نہیں، اعتراض کیا گیا کچھ ممبران کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شمولیت کا حق نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر کا موقف ہے کہ وہ ممبر ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا الیکشن کمیشن نے قانونی و حقائق میں بدنیتی کی، آپ کو بدنیتی ثابت کرنی پڑے گی، الیکشن کمیشن نے اس وقت کارروائی شروع کی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، آپ تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں الیکشن کمیشن اتنا خودمختار ہے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اس وقت کارروائی شروع کی، آپ یہ نہیں کہہ سکتے اپنے گھر میں جمہوریت نہیں چاہیے لیکن باہر جمہوریت چاہیے، سیاست ہے ہی جمہوریت، آپکو سیاست چاہیے لیکن جمہوریت نہیں چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات رہے ہیں، پی ٹی آئی میں بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے، تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی جماعت کا تو نعرہ رہا لوگوں کو بااختیار بنانا ہے ، آپ نے اپنے ہی ممبران کو حق نہیں دیا۔
علی ظفر نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اصل نام فوج ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے یہ نہیں کہہ سکتے الیکشن ہو گئے، الزام یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، آپ کے بانی چیئرمین اس وقت جیل میں ہیں، انھیں ٹرائل کا سامنا ہے، کل وہ باہر آکر کہیں گے میں تو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں، کم از کم ممبران کو ووٹ کا حق تو ملنا چاہیے۔
انہوں نےمزیدکہا کہ پارلیمنٹ کا قانون کہتا ہے سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت لائیں، جن 14 لوگوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا انھیں کیوں ووٹنگ کے حق سے محروم کیا گیا۔
علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر الیکشن میں کوئی بے ضابطگی ہے تو الیکشن کمیشن کو جانچنے کا حق نہیں ہے، اگر کسی کو ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض ہے تو سول کورٹ جائیں، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اچانک سے یہ الزام لگا دینا اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو کر کچھ کر رہی ہے، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بڑے بڑے عہدوں پر سب جانتے ہیں سیاسی جماعتوں پر کون عہدیدار ہیں، چھوٹے عہدوں پر تو لوگوں کو موقع ملنا چاہیے، اگر آپ 8 فروری کو 326اراکین کو بلامقابلہ جتوا کر لے آئیں ایسے الیکشن کو میں نہیں مانتا، لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس بہت ہو گیا، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کا سرٹیفیکیٹ یہ عکاسی کرتا ہے الیکشن ہوئے، آپ کی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن سے کیوں گھبرا رہی ہے، الیکشن کمیشن تو اس وقت سے کہہ رہا ہے انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں جب آپکی حکومت تھی، آپ ہمیں ایک دستاویز تک نہیں دکھا پا رہے، اگر چھ ماہ تک کیس چلانا ہے تو پھر فیصلہ معطل کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو یا حامد خان کو کیوں نامزد نہیں کیا گیا، سب نئے نئے لوگ پی ٹی آئی میں آ گئے، پرانے لوگ کہاں گئے، جب ایک دم سے نئے چہرے آگئے، تو کیا یہ ہو سکتا ہے سیاسی طور پر جماعت کو ہتھیا لیا گیا ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا بغیر پینل الیکشن نہیں ہو سکتا، کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں، چار لوگوں نے مل کر پوری سیاسی جماعت بانٹ لی، پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا بھی 2014 سے معاملہ پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مئی 2021 سے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے متعلق نوٹس کیا، پی ٹی آئی نے کورونا کا بہانہ کر کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، اگر جماعت میں آپ پرانے لوگ رکھیں تو ان کو تجربہ ہوتا ہے، ویسے ہی پوچھ رہا ہوں حامد خان کا زیادہ حق ہے چیئرمین بننے کا یا گوہر خان کا؟
علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے، ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ پارٹی انتخابات کیس میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے، ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا، لیکن میری جماعت کو تو عملا تحلیل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہٹایا گیا اس وقت تو یہ بات نہیں کی گئی، دھرنا نظرثانی درخواستیں واپس لے لی گئیں، پہلے بھی آپ نے ہاؤس تحلیل کردیا، اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی، تحریک انصاف نے تو خود پر خودکش حملہ کردیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد نورین فاروق روسٹرم پر آ گئیں اور کہا کہ میں نوے کی دہائی سے تحریک انصاف کے ساتھ رہی، میں ابھی تک پی ٹی آئی میں ہوں میں الیکشن لڑنا چاہتی تھی مجھے بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن بس ایسے ہی ہو رہا ہے۔
اس کے بعد بلال اظہر رانا روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں 1996ء سے پی ٹی آئی میں ہوں اور میں بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتا تھا مگر مجھے کاغذات نامزدگی تک نہ دیے گئے حالیہ واقعہ ہوا جس کے سبب لوگ پارٹی چھوڑ گئے۔
بعدازاں اکبر ایس بابر کے وکیل نے دلائل دیے اور کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے عبوری آئین کی بھی نقل فراہم کی ہے آئین سازی کے عمل میں حامد خان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان بلے کیلئے درخواست اکبر ایس بابر کے ذریعے دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہزار دو سے پہلے پی ٹی آئی کا کیا انتخابی نشان تھا؟ عمران خان نے ایک شوکاز نوٹس حامد خان کو بھی جاری کیا جو کہ 2019ء کو دیا گیا تھا، حامد خان صاحب نے ایک جواب جمع کرایا تھا، بطور ممبر الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجھے تسلیم کیا، کئی مرتبہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے خلاف درخواستیں دائر ہوتی رہیں، دو ہزار چودہ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس شروع ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان نے تسلیم کیا اکبر ایس بابر فاؤنڈنگ ممبر ہیں۔
وکیل اکبر ایس بابر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی نہیں دیے گئے، ہم الیکشن کمیشن کے موقف کی تائید کرتے ہیں، جب ایک عدالتی فورم چن لیا جائے تو دوسرے فورم سے رجوع کرنا فورم شاپنگ کہلاتا ہے، تحریک انصاف کا پہلا انتخابی نشان چراغ تھا۔ بعدازاں اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل شروع کیا جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ یہ دلیل دی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن غیر منصفانہ سلوک کررہا ہے اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گزشتہ روز تیرہ سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو وقت دیا گیا الیکشن بعد میں کرالے عوامی نیشنل پارٹی کے اگلے انٹرا پارٹی انتخابات میں ابھی پانچ سال مکمل نہیں ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت میں رہتے ہوئے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست منظور کرلی تو پھر تو پرانے جیت جائیں گے، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں ہوتے رہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں قیاس آرائیوں پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
بعد ازاں کیس کی سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔