اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا مختصر فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق اکثریتی فیصلہ سات آئینی و قانونی نکات کی بنیاد پر جاری کیا گیا، آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف کوئی ازخود لاگو ہونے والی شق نہیں ہے، یہ آرٹیکل نااہلی کے ڈیکلیریشن اورمدت کے تعین کا طریقہ نہیں بتاتا۔
فیصلے کے مطابق ایسا کوئی قانون بھی نہیں ہے جو 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے ڈیکلیریشن کی مجاز عدالت کا تعین کرے، 62 ون ایف کے تحت آرٹیکل 10 اے، شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ 62 ون ایف کے تاحیات کسی کی نااہلی والی تشریح اس آرٹیکل کے سکوپ سے باہر ہے، ایسی تشریح شہریوں کے انتخابات میں حصہ لینے اور پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے بنیادی حق کو ختم کرتی ہے۔
فیصلے کے مطابق ایسی تشریح آئین کے آرٹیکل 17 میں درج حقوق کیخلاف ہے، جب تک کوئی قانون 62 ون ایف کو قابل عمل بنانے نہیں آتا اس کی حیثیت 62 ون ڈی، ای اور جی جیسی ہی ہے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، تاحیات نااہلی والا فیصلہ جو آئین میں موجود ہی نہیں وہ پڑھنے جیسا تھا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 232 میں ترمیم کو جانچنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ احترام کے ساتھ، میں اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہوں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں اخذ نتیجہ قانونی طور پر درست ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی نہ تاحیات ہے اور نہ ہی مستقل، عدالتی ڈیکلیریشن باقی رہنے تک نااہلی رہے گی۔