اسلام آباد: احتساب عدالت نے خورد برد کیس میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
فواد چوہدری کے خلاف جہلم کے تعمیری منصوبوں میں خورد برد کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف اور وکیل صفائی فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پہلے 14روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا تھا اور 10 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا تھا، بینکنگ ریکارڈ منگوایا ہے جس پر خورد برد کا شک ہوا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کنٹریکٹر کو بھی 2 جنوری کو طلب کیا گیا ہے، فواد چودھری سے مزید تفتیش کرنی ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے فواد چوہدری کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ تفتیش مکمل کر لیں، بینکنگ ٹرانزیکشن سے مزید تفتیش کرنے میں مدد ملے گی۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 2 جنوری کو تعمیری منصوبوں سے منسلک دو افراد کو طلب کیا ہے، 16 میں سے 8 کنال کی زمین فواد چودھری کے نام کی گئی۔
عدالت میں فواد چوہدری نے کہا کہ کافی وقت سے مختلف رویے دیکھ رہے ہیں، عدالت سب سے پہلے دیکھتی ہے دائرہ اختیار ہے سماعت کرنے کا یا نہیں، میرے وارنٹ دیکھ لیں 4 الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ بطور وزیر کنٹریکٹرز پر اثر و رسوخ استعمال کیا، پراجیکٹ پی ایس ڈی پی کا ہے جس کی منظوری ملی ہوئی تھی، اپنے علاقے کے لوگوں کی ڈیمانڈ حکومت تک پہنچانا مجھ پر فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے کام نہیں کروں گا تو سیاست کا کیا فائدہ؟ پراجیکٹ صوبائی اور وفاقی حکومت نے منظور کیا۔
فواد چوہدری کی جانب سے احسن اقبال کے نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نیب کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا کہ انکوائری کھول کر بیٹھ جائے، میں کیا اکبر بادشاہ ہوں جو سب پر اثر و رسوخ میرا چل گیا؟
انہوں نے کہا کہ لگتا ہے نیب پراسیکیوشن کو تاحال تحقیقات کرنے کا موقع نہیں ملا، اس پراجیکٹ کا تو ٹھیکہ ہی نہیں ہوا، ایف ڈبلیو او کو پراجیکٹ بھیج دیا گیا تھا۔
فوادچوہدری نے کہا کہ فرض کرلیں اگر میں نے ٹھیکہ دینے کا کہا ہے نیب کا دائرہ اختیار تو پھر بھی نہیں بنتا، ایسا نہیں ہو سکتا میرے حلقے سے کسی نے میرے خلاف کچھ کہہ دیا اور نیب نے کیس کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلا نوٹس مجھے تب ملا جب میں اڈیالہ جیل میں تھا، میں نے جواب دیا مجھ پر لگے الزامات بتا دیں اور وکلاء کے ساتھ ملاقات رکھ دیں، نیب اپنا دائرہ اختیار دیکھ لے۔
عدالت میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کا مقصد کیس ثابت کرنا ہی نہیں بلکہ حقائق کو بھی سامنے لانا ہوتا ہے، فواد چودھری اپنے علاقے کا کام کریں لیکن قانون کے مطابق کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر منصوبوں میں خورد برد ہوگی تو نیب نوٹس لے سکتی ہے، کنٹریکٹ ہوا یا نہیں ہوا اس کی کوشش تو کی گئی ہے۔
فواد چوہدری کے وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ بینکنگ ٹرانزیکشن کا ریکارڈ ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں، مجھے بولنے دیں، ورنہ میری آواز ہائیکورٹ تک پہنچ جائے گی۔انہوں نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت بھی کی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے بینکنگ ٹرانزیکشن تو عدالت کے سامنے رکھ دی ہیں جس پر وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی بینکنگ ٹرانزیکشن ہمیں تو نہیں دی گئیں۔