اسلام آباد:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہے تو سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔ ادارے نہیں لوگ بْرے ہوتے ہیں۔ ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔سپریم کورٹ نے سابق جج شوکت صدیقی کیس میں دیگر افراد کو فریق بنانے کیلئے ایک دن کی مہلت دیدی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بنچ سے کسی کو نہیں ہٹایا ۔بنچز کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے، اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے، آپ کی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے، آجکل ہر کوئی موبائل لیے صحافی بنا ہوا ہے، صحافی ایک بڑا رتبہ ہے ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فی البدی تقریر کی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دیے، راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کو کیسے پتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ ایجنسیوں نے شکایت کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے، میں ذاتی طور پر جوڈیشل کونسل کی کارروائی خفیہ رکھنے کے خلاف ہوں، کونسل کی کارروائی اوپن ہونی چاہیے ۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو کیس میں فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔