لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلا تاخیر ‘بلے‘ کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلے کے نشان کے بغیر انتخابات ہوئے تو اس سے مزید کشیدگی پھیلے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی ہر لحاظ سے بدترین ریاستی جبر اور انتخابات سے قبل جاری شرمناک سیاسی انجینئرنگ کے نشانے پر ہے، تمام شواہد اور آثار انتخابات پر تاریخی ڈاکے کے ریاستی عزائم کا پردہ چاک کررہے ہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اور ووٹ دینے کی اہل آبادی کے تین چوتھائی سے زائد حصے کی تائید کی حامل جماعت کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ جیسی مکروہ سازش کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ اڈیالہ جیل میں ناحق قید بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کیلئے بار بار غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرجمہوری ہتھکنڈوں کا بےدریغ استعمال کیا گیا۔
تحریک انصاف کی قیادت نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو میسّر عوامی مینڈیٹ چھیننے کے مجرمانہ ہدف کے تحت پورا ملک غیرآئینی، غیرقانونی، غیرنمائندہ اور غیرجمہوری حکومتوں کے قبضے میں ہے اور انتخاب کی بنیادی دستوری ضرورت سے بھی محروم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نو مئی کے بعد جماعت کو توڑنے، بانی چیئرمین سمیت ہزاروں بےگناہ کارکنوں کو جیلوں میں بھرنے اور ریاستی قوت کے اندھے اور غیرقانونی استعمال کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی حمایت پر بضد عوام ریاست کے شرانگیز منصوبہ سازوں کیلئے بڑا چیلنج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو انتخاب و سیاست سے باہر کرنے کے مذموم منصوبے میں مرکزی کردار الیکشن کمیشن کے سپرد کیا گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر اور نہایت متنازع انداز میں کمیشن میں بٹھائے گئے اراکین نے تحریک انصاف کو اپنے متعصّبانہ فیصلوں، غیرآئینی و غیرقانونی حکم ناموں، کھلی بدنیّتی اور شرمناک امتیازی سلوک کے ذریعے صفحۂ سیاست سے مٹانے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔
ترجمان نے کہا کہ تحریک انصاف کو سیاست سےبے دخل کرنےکے خواہاں غیرجمہوری اور غیرسیاسی حلقوں نے مایوسی اور ہیجان میں کمیشن کو عمران خان کی جماعت کو ٹیکنیکلی ناک آؤٹ کرنے کا ہدف سونپا ہے، اسی مذموم مقصد کے تحت تحریک انصاف کو ”بلّے“ کے انتخابی نشان کے بنیادی حق سے محروم کرکے تحریک انصاف کے کروڑوں اکثریتی ووٹرز کو سیاسی شناخت سے محروم کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا اور تحریک انصاف سے جبراً ”بلّے“ کا انتخابی نشان چھیننے کیلئے ڈیڑھ سال قبل جماعتی آئین کے تحت کروائے گئے انٹراپارٹی انتخابات کو کسی قانونی جواز کے بغیر کالعدم قرار دیکر ازسرِ نو انتخابات کے انعقاد کا حکم صادر کیا گیا۔
اعلامیے میں پی ٹی آئی قیادت نے کہا کہ ’تحریک انصاف نے 23 نومبر کے کمیشن کے غیرقانونی حکمنامے پر تمام تحفّظات کے باوجود عمل کیا اور اسے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے سے پہلے جماعتی آئین کے تحت صاف شفاف انداز میں انتخابات کروائے۔
ترجمان نے کہا کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی اور صحیح معنوں میں جمہوری روایات رکھنے والی جماعت کے بانی چیئرمین عمران خان نے جمہوریت و قانون کی بالادستی کیلئے رضاکارانہ طور پر جماعت کی جانب سے تاحیات چیئرمین مقرر کئے جانے کے باوجود خود کو منصب سے الگ کیا اور اپنے اہلِ خانہ میں سے کسی کو جماعت کی چیئرمین شپ سونپنے کی بجائے جماعت کے ایک قابل اور وفاشعار کارکن کو انٹراپارٹی انتخابات میں چیئرمین کے منصب کیلئے بطور امیدوار نامزد کیا۔
تحریک انصاف کے کارکنان نے آزاد الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی جماعتی آئین کے تحت صاف شفاف انتخابات میں بیرسٹر گوہر علی خان کو بلامقابلہ جماعت کا چیئرمین منتخب کرکے بانی چیئرمین کے فیصلوں پر اپنے غیرمتزلزل اعتماد کا اظہار کیا اور پھر تمام دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کروادیے گئے۔
ترجمان نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف کے توسط سے جمع شدہ انٹراپارٹی انتخابات کے نتائج جمع کروائے جانے کے بعد بھی کمیشن کی جانب سے انتخابات سے محض 60 روز قبل تک انتخابی نشان نہ دینا شدید تشویش اور قبل از انتخابات دھاندلی کی بدترین کوشش سے کسی طور کم نہیں، پوری شدت اور زور سے نشاندہی کررہے ہیں کہ کمیشن کے پاس بلّے کا نشان روکنے کا کوئی قانونی حق ہے اور نہ ہی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر دستیاب ہے۔
اعلامیے میں کہاگیا ہے کہ بلّے کے نشان کو جبراً ہتھیانے کی مذموم کوشش دستور، جمہوریت، شفاف انتخابات اور کروڑوں پاکستانیوں سے ان کی سیاسی شناخت چھیننے کی شرمناک کوشش ہے اور بیلٹ پیپر پر اس نشان کے بغیر الیکشن اپنی اہمت و افادیت کھو دیں گے جس سے مزید انتشار اور کشیدگی پھیلے گی۔
پی ٹی آئی قیادت نے کہا کہ کمیشن پسِ پردہ کرداروں کی ایما پر ووٹ کی حرمت پامال کرنے کی روش ترک کرے اور تحریک انصاف کو فی الفور بلّے کا نشان جاری کرے جبکہ ترجمان نے لاہور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی 23 نومبر 2023 کی درخواست کو سماعت کیلیے مقرر کر کے جلد فیصلہ دے۔