اسلام آباد: نیپرا کی تحقیقات میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ( ڈسکوز ) کی جانب سے صارفین سے زائد وصولی ( اوور بلنگ) ثابت ہوگئی، نیپرا نے ڈسکوز بشمول کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈسکوز کی جانب سے اوور بلنگ کے معاملے پر نیپرا نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی جس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے زائد وصولی ثابت ہوگئی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30دن سے زائد بلنگ کرنے کی وجہ سے لاکھوں صارفین متاثر ہوئے، بلوں پر میٹر ریڈنگ کی تصویر بھی نہیں لگائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خراب میٹر بروقت تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے ڈسکوز کی جانب سے ایوریج بل بھیجے گئے، جس کی وجہ سے ہزاروں صارفین بالخصوص گھریلو اور کم بجلی استعمال کرنے والوں کو بجلی کے غلط اور زائد بلوں کا سامنا کرنا پڑا۔
نیپرا کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لاکھوں صارفین کو غلط ڈیٹیکشن بل بھیجے گئے۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے جان بوجھ کر اس قسم کی بددیانتی کر رہی ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ڈسکوز کی ریکوری بھی کم رہی، ڈسکوز منظور شدہ ٹیرف کی شرائط و ضوابط کے مطابق بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہیں، نیز انہوں نے کنزیومر سروس مینول کی شقوں کی خلاف ورزی کی۔
نیپرا کاکہنا ہے کہ اتھارٹی نے تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں ڈسکوز بشمول کے الیکٹرک کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اتھارٹی نے ڈسکوز کو 30 دنوں میں خراب میٹروں کو جلد از جلد تبدیل کرنے اور غلط وصول کیے گئے بلوں کو صحیح کرنے کا حتمی وقت دیا ہے، بصورت دیگر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اتھارٹی نے ڈسکوز بشمول کے الیکٹرک کو ڈیفیکٹیومیٹرز پالیسی کے مطابق وقت پر تبدیل نہ کرنے پر نوٹس بھیج کر وضاحت طلب کر لی ہے۔
نیپرا کے مطابق صارفین کی جانب سےڈسکوز اور کے الیکٹرک کے خلاف جولائی اور اگست کے بلوں میں اوور بلنگ اور غلط میٹر ریڈنگ کرنے پر کثیر تعداد میں درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں۔
اتھارٹی نے اس معاملے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے 3 سینئر افسران پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی اور کمیٹی کورپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
نیپرا کے مطابق کمیٹی نے صارفین کی شکایات کا جائزہ لیا اور متعلقہ ڈسکوز کے دفاتر کا وزٹ کر کے ایک جامع رپورٹ اتھارٹی کے لیے تیار کی گئی جس میں ڈسکوز کو قصوروار پایا گیا اور ان پر اووربلنگ ثابت ہوگئی۔
نیپرا نے کمیٹی رپورٹ کو نیپرا کی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔