لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ انڈسٹری میں آنے والے پیسے کے بارے میں نہ پوچھنے کی پالیسی ہونی چاہیے۔برے حالات ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدے داروں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہم پاکستان کی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں۔ آپ سے ہمیشہ مشاورت کی ہے، مشاورت ہی سے آگے بڑھیں گے۔
نواز شریف نے کہا کہ ہماری بنائی پالیسیوں سے پاکستان کی کاروباری برادری نے بھرپور عمل کیا۔ ہماری بنائی پالیسیوں کو بھارت نے اپنایا اور معاشی ترقی حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ 1990ء کے بعد سے ہم نے کاروبار کو روایتی دائروں سے آزادی دلائی۔ دیگر ممالک بھی ان مراحل سے گزرے ہیں۔ ہم نے پالیسیاں بنائیں تو خزانہ بھرنا شروع ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ انڈسٹری میں آنے والے پیسے کے بارے میں نہ پوچھنے کی پالیسی ہونی چاہیے۔ 1990ء کے دور کی ہماری پالیسیاں اور ترقی کی رفتار جاری رہتی تو آج پاکستان ترقی کی رفتار میں کہیں آگے ہوتا ۔ عوام کو مہنگائی، غربت سے نجات دلانا ہماری ذمے داری اور فرض ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر لوگ ترقی مانگتے ہیں، تعلیم اور صحت مانگتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور یہ سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ 2013ء سے 2017ء کے دوران پاکستان دنیا کی 24 ویں معیشت بن چکا تھا۔ ہم نے 4 سال ڈالر کو 104 پر باندھ کر رکھا۔ ہمارے دور کی ترقی اور پالیسی جاری رہتی تو ڈالر آج 40 یا 50 روپے کا ہوتا۔ آج پاکستان کی کرنسی کو مٹی میں ملا دیا گیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اسلامی ممالک پاکستان کو اپنا رکھوالا سمجھنے لگے تھے۔ آج یہ حالت ہو گئی کہ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے محتاج ہو گئے ہیں۔ یہ کلہاڑی ہم نے خود اپنے پیروں پر ماری ہے۔ یہ بُرے حالات ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ ہمارے دور میں سوا 6 فیصد پالیسی ریٹ تھا۔ آج 22 فیصد پر ہے۔ اس سے کون کاروبار کر سکتا ہے۔ ہم نے خود اپنی پارلیمنٹ اور وزرائے اعظم کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ پھر ملک کس کے حوالے کر دیاگیا۔ روپیہ، معیشت اور سب نظام تباہی کا شکار ہوگیا۔ ہمارے دور میں 1000 روپے جس کا بل آتا تھا، آج 15000 ہزار بل آ رہا ہے۔ قیمتوں میں 5، 5 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
قائد ن لیگ نے کہا کہ اتنی مہنگائی میں عوام کیسے زندہ رہیں گے؟ کاروبار کیسے چلے گا؟۔ قوم کو جھوٹے خواب دکھانے کا سلسلہ اب بند کرنا ہو گا۔ 2013ء میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو ترقی دیتے ہیں اور جلاوطنی اور قید بھی کاٹتے ہیں۔ 2022ء میں حکومت میں آنے پر تیار نہیں تھے لیکن پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا ضروری تھا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف صاحب کے مستعفی ہونے کی تقریر تیار تھی، میں نے تقریر دیکھ لی تھی۔ ہم نے دھمکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کے مفاد کے لیے بے خوف ہو کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ بات پاکستان کی ہو تو ہم فیصلوں کے ذاتی مفاد پر نقصان کی پروا کبھی نہیں کرتے، یہی ہم میں اور دوسروں میں فرق ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے جو بھی کرنا پڑے کرتے آئے ہیں، کرتے رہیں گے۔ معیشت کے فیصلے دلیری اور بہادری کے ساتھ کرنے ہوں گے عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی سستی کرنی پڑے گی، اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ ہیلتھ کارڈ دیا تھا ، غریب کا علاج اسٹیٹ کی ذمے داری ہے۔