کراچی : صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے کانگو وائرس کے 2 مزید مریض کراچی منتقل کیے گئے ہیں ۔
ایدھی ایئرایمبولنس کےذریعے 45سالہ محمد صادق اور50 سالہ غنی کو کراچی لایا گیا ہے، کانگوکےدونوں مریضوں کو آغاخان ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔
دوسری جانب کوئٹہ میں کانگو وائرس کی خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت نے ریڈ الرٹ جاری کر رکھاہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کانگو وائرس کا شکار ہونےوالے سول ہسپتال کے ڈاکٹر شکراللہ خان کراچی میں انتقال کرگئے تھے ، کوئٹہ کے سول ہسپتال کے 5 ڈاکٹروں سمیت عملے کے 8 افراد کانگو وائرس کا شکار ہو ئے تھے جنہیں کراچی کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
یہ وائرس مویشی گائے، بیل، بکری، بکرا، بھینس اور اونٹ، دنبوں اور بھیڑ کی کھال سے چپکی چیچڑوں میں پایا جاتا ہے، چیچڑی کے کاٹنے سے وائرس انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
اس بیماری میں جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے، خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ وائرس زیادہ تر افریقہ اور جنوبی امریکا ’مشرقی یورپ‘ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پایا جاتا ہے، اسی بنا پر اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے ، یہ وائرس سب سے پہلے 1944 میں کریمیا میں سامنے آیا، اسی وجہ سے اس کا نام کریمین ہیمرج رکھا گیا تھا۔
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔
تیز بخار سے جسم میں سفید خلیات کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اس لیے ہر شخص کو ہر ممکن احتیاط کرنی چاہیے۔
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں، مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں، مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں، لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں، جانور منڈی میں بچوں کو تفریح کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے۔