اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب کے 8 الیکشن ٹربیونلز کے قیام کا معاملہ حل، مشاورت کے بعد چار الیکشن ٹربیونلز پر نام فائنل، چار ریٹائرڈ ججز کا تقرر الیکشن کمیشن کرے گا، عدالت میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت کے میٹنگ منٹس پیش کر دیے گئے، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پنجاب میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کی.دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سْن لیتے ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ ہم نے بینچ سے علیحدگی کی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ بیٹھ جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالتی کارروائی کی آخری سماعت کا آرڈر پڑھنے دیں۔ آپ کو سنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، ہم دشمن نہیں ایک ملک کے بسنے والے ہیں، گزشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھیجا، ہم نے سیکھنا ہے کہ اداروں کو کام کرنے دیں، اختلافات کے ہونے سے انکار نہیں، خط و کتابت کی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ نہیں ہوتا، خط و کتابت میں جو زبان استعمال ہوتی ہے، یہ طریقہ نہیں ملک چلانے کا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اب مسئلہ حل ہو چکا ہے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب جتنا جلدی ہو سکے انتخابی عذرداریوں کے فیصلے ہونے چاہئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان سے تو ٹریبونلز کے فیصلے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی ایک دن بھی مدت نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ہمارے پاس بھی ایسے مقدمات آئے جو اسٹے پر چلتے رہے۔ ڈپٹی اسپیکر صاحب نے بھی حکم امتناع حاصل کرکے آئین کی خلافِ ورزی کی۔ اب شاید وہ ڈپٹی اسپیکر انڈر گراوٴنڈ ہو چکے ہیں،تنازعات ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اداروں پر حملہ کردیں۔ آئین کو پڑھنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔ آئین میں واضح ہے کہ ٹربیونل تشکیل دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت سے مشروط ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ چیف جسٹس کے بھیجے ہوئے نام مسترد کر دے۔ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ججز کا پینل بھی نہیں مانگ سکتا۔ تاثر دیا گیا کہ مقدمہ میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ حامد خان کے بیرون ملک ہونے کی درخواست آئی تھی، اس وجہ سے کیس تاخیر کا شکار ہوا۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے غلط خبروں پروضاحت کیوں نہیں کی؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں ملک میں نہیں تھا اس وجہ سے کسی خبر کا علم نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کورٹ رپورٹنگ حقائق پر ہوتی تھی اب ڈالرز کے لیے ہوتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ صاحب مسئلہ حل ہوچکا، اب کیا چاہتے ہیں؟۔ کیا آپ اپنی مرضی کے ججز سے فیصلے کروانا چاہتے ہیں؟ درخواست گزار مرضی کا جج چاہے گا تو نظام انصاف ختم سمجھیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مرضی کے جج سے فیصلے کا کبھی نہیں کہا۔دوران سماعت جسٹس عقیل عباسی کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 8 میں سے 4 ٹریبونلز فنکشنل ہو گئے ہیں۔ اب 4 ٹریبونلز الیکشن کمیشن نوٹیفائی کرے گا، جس پر جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ان ریٹائرڈ ججز کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی ہے ؟جسٹس میٹنگ منٹس میں نہیں کہا گیا رضامندی دی گئی ہے۔
وکیل درخواست گزار سلیمان راجہ نے کہا کہ پہلے جو چار ججز الیکشن ٹربیونلز میں لگائے گئے انھیں ہٹا دیا گیا. جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاججز کی نیت پر شک نہ کریں،ججز اللہ کو جواب دہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا آپ مرضی کے ججز سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں،کیا سابق چیف جسٹس امیر بھٹی نے جو دو تقرریاں کیں کیا آپ وہ چاہتے ہیں،ایک جج ہو جس کا قریبی رشتہ دار سیاست دان ہو کیا اسے ٹربیونلز کیلئے ججز لگانے چاہیں. عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔