راولپنڈی /لاہور /کراچی: جماعت اسلامی کی کال پر سیلز ٹیکس اور تاجر دوست سکیم کیخلاف ملک بھر میں تاجر برادری کی جانب سے آج مکمل شٹرڈاوٴن ہڑتال ہے۔
شٹر ڈاوٴن ہڑتال کے باعث ملک بھر میں شہر شہر بازار ، مارکیٹیں، شاپنگ سنٹرز بند رہیں گے، تاجروں کی جانب سے تاجر دوست سکیم اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایف پی سی سی آئی ، جے یو آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تاجروں کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔
ہڑتال کے معاملے پر لاہور کی تاجر برادری 2 حصوں میں تقسیم ہو گئی، لنڈا بازار، اردو بازار، انار کلی و دیگر مارکیٹوں کے صدور بازار بند رکھنے کے حامی ہیں، صدر بادامی باغ آٹو مارکیٹ، چیئرمین فیروزپور روڈ نے بھی ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
راولپنڈی میں ٹیکسوں کے خلاف تاجروں کی ہڑتال کے باعث بڑے تجارتی مراکز ،شاپنگ مل مارکیٹیں بند ہیں نان بائی تنور،چکن شاپس موٹر سائیکل مکینک مارکیٹ،نرنکاری بازار،ٹرنک بازار،کالج روڈ، باڑا بازار موتی بازار بن،راجہ بازار،سٹی صدر روڈ لیاقت روڈ کشمیری بازار کمرشل مارکیٹ بھی بندہے۔
دوسری جانب انجمن تاجران نعیم میر گروپ سے منسلک تاجران مارکیٹس کھلی رکھنے کے حق میں ہیں، صدر شاہدرہ بورڈ خلیل الرحمان اور سینئر نائب صدر ہال روڈ نے مارکیٹ کھولنے کا اعلان کیا ہے، صدر پنجاب ریٹیلرز پولٹری ایسوسی ایشن نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
آل پاکستان انجمن تاجران سندھ کے صدر نے آج شٹر ڈاوٴن ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار مکمل بند رہے گا، ٹیکسوں اور بجلی کے بلوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہیں۔
کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد رضوان نے کہا کہ کراچی سے خیبر تک تمام تاجر تنظیمیں ہڑتال میں شامل ہیں، مسائل حل نہ ہوئے تو ہڑتال کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔
پشاور میں بھی تاجروں کی جانب سے مختلف بازار بند رکھے گئے ہیں اور تاجر یونینز نے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے، ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔
اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ چترال سے لے کر کراچی تک کامیاب ہڑتال ہو گی، حکومت کو مجبور کریں گے اور اسے پیچھے ہٹنا پڑے گا، حکومت تاجر دوست کے نام پر تاجر دشمن سکیمیں متعارف کرا رہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ تاجر ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن مارکیٹوں کی بنیاد پر ٹیکسوں کا تعین منظور نہیں، جاگیرداروں پر ٹیکس لگایا جائے، حکمران طبقہ اپنے خرچے کم کرے۔