اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو تین ماہ کے لیے رعایت دینے کا اعلان کردیا۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ 90 دن میں کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا مگر بڑے بڑے کرپشن کیسز سامنے آئے اور کرپشن ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ، پہلے چینی برآمد کی گئی پھر درآمد کی گئی، لوٹی ہوئی دولت کا کوئی پیسہ نہیں آیا مگر برطانیہ کی مہربانی سے 190 ملین پاؤنڈ پاکستان کو واپس دیے گئے مگر اس پر بھی ہیرا پھیرا کی گئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو قربان کیا، مشکل مرحلہ گزر گیا اور پاکستان بچ گیا، ہم پر یہ تنقید کی گئی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ بنارہے ہیں اس میں کیا راز کی بات ہے؟ سب کو معلوم تھا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کررہے ہیں، ایک تنظیم کے بانی نے کہا مرجاؤں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں اور کئی ماہ ضائع کردیے بعدازاں آئی ایم ایف کے پاس گیا اور آئی ایم ایف سے مہنگا پروگرام لیا اور اسی پروگرام کو بعد میں سیاست کی نذر کردیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس بجٹ میں یقیناً ٹیکسز لگے ہیں، اشرافیہ پر بعض ٹیکسز پہلی بار لگ ہیں، لینڈ کا کاروبار کرنے اور سرمایہ کاروں پر پہلی بار ٹیکس لگا ہے جو بیٹھے بٹھائے منافع حاصل کررہے ہیں جس سے 100 ارب آمدن کی توقع ہے۔ انہوں ںے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا ہے اس پر انہوں نے احتجاج کیا ہے کہ کیا ٹیکس دینے کے لیے ہم لوگ ہی رہ گئے ہیں؟ انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پراپرٹی کے منافع والوں پر پہلی بار ٹیکس لگایا ہے ان سے مزید ٹیکس لینا تھا اگلے برس رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ٹیکس میں مزید اضافہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر زمین اپنے پاس رکھ کر بیٹھے بٹھائے منافع کمارہا ہے اور سٹے بازی کررہا ہے بیٹھے بٹھائے زمینوں کی قیمتیں دگنی اور تگنی ہورہی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کے نرخ پر نظرثانی کی گئی ہے، پروٹیکٹڈ صارف کہلانے والے کے نرخ بڑھے تو ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند ہوئی، ان کا احتجاج جائز ہے، یہ ڈھائی کروڑ صارفین ہیں ہم دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کا اعلان کررہے ہیں میرے اعلان سے 94 فیصد صارفین مستفید ہوں گے، دو سو یونٹس والوں کو ہم تین ماہ جولائی، اگست اور ستمبر تک رعایت دے رہے ہیں ، اکتوبر میں موسم بہتر ہوجاتا ہے، تین ماہ کے لیے عام صارفین کی ریلیف دینے سے پچاس ارب روپے کی رقم خرچ ہوگی انہیں چار روپے سے سات روپے فی یونٹ تک فائدہ پہنچے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کرنا ہماری مجبوری تھی اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا، ہم بچت کریں گے، ڈاؤن سائزنگ شروع ہوچکی، نجکاری جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا امپورٹ اور ایکسپورٹ کا فریٹ یعنی بحری جہازوں کا کرایہ سالانہ پانچ ارب ڈالر ادا کیا جاتا ہے اور ہمارے مایہ ناز قومی ادارے پی این ایس سی کے پاس صرف بارہ جہاز ہیں اور سالانہ تنخواہیں پانچ ارب روپے ہیں یعنی فی جہاز 47 یا 48 کروڑ روپے کا پڑرہا ہے، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کے پاس کئی سو جہاز ہیں وہ امپورٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں اور کرایہ بھی بچاتے ہیں یہاں ہم پی این ایس سی کو پانچ ارب روپے سالانہ تنخواہیں دے رہیں اور ہمارے پاس جہاز ہی نہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے، یہ دیمک ہے جو ملک کو چاٹ رہی ہے اس کا ہمیں فوری طور پر علاج کرنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ صرف کراچی بندرگاہ پر امپورٹ ایکسپورٹ کی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں بارہ سو ارب روپے چوری کیے جارہے ہیں، ایک ادارے نے ہمیں ایک ہفتے پہلے ہی یہ رپورٹ دی ہے، 2700 ارب روپے کے کلیمز برسوں سے عدالتوں میں پڑے ہوئے ہیں یہ ہیں وہ پیراسائٹس جو پاکستان کو کھارہے ہیں۔