اسلام آباد:اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا ٹریبیونل تبدیلی کا دس جون کا آرڈر معطل کر دیا جس کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ٹربیونل بحال ہوگیا۔ عدالت نے ٹربیونل تبدیلی کی درخواست دائر کرنے والے لیگی ایم این اے انجم عقیل خان کی وضاحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سلام آباد ہائی کورٹ نے انجم عقیل خان کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔عدالت نے حکم دیا کہ انجم عقیل خان ہر سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ انجم عقیل خان عدالتی استفسار پر درخواست میں استعمال الفاظ کی وضاحت نہ کر سکے۔
دورانِ سماعت عدالت نے انجم عقیل سے استفسار کیا کہ آپ نے الیکشن کمیشن میں کوئی درخواست دی تھی؟ آپ نے کوئی بیانِ حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا کہ اس میں جو لکھا ہے وہ سچ ہے۔
عدالت نے انجم عقیل کو الیکشن کمیشن میں اپنا جمع کردہ بیانِ حلفی پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میری انگریزی بڑی کمزور ہے، بچپن میں انگریزی پر کبھی فوکس نہیں کیا، ا?پ کو سمجھانا ہے کہ نیپوٹ ازم nepotism کیا ہوتا ہے؟ مجھے اس کا مطلب سمجھائیں؟
اس موقع پر انجم عقیل کے کان میں کچھ کہنے پر عدالت نے وکیل پر اظہارِ برہمی کیا۔انجم عقیل خان نے کہا کہ یہ لیگل الفاظ ہیں، میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتا ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیپوٹزم Nepotism لیگل لفظ بالکل بھی نہیں، آپ نے پڑھے بغیر بیانِ حلفی پر دستخط کر دیے؟۔انجم عقیل خان نے جواب دیا کہ جی! میں نے بیانِ حلفی پر بغیر پڑھے دستخط کیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست دی ہے کہ جج صاحب جانبدار تھے تو بتائیں وہ کیسے جانبدار تھے؟
انجم عقیل خان نے جواب دیا کہ ججز ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں، یہ غلطی میری ہے کہ بغیر پڑھے دستخط کیے ہیں، ان الفاظ پر میں معافی مانگتا ہوں۔
عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ تعصب کیا ہوتا ہے؟ یہ بھی بتا دیں۔انجم عقیل خان نے جواب دیا کہ میں معذرت خواہ ہوں، کیس ٹرانسفر کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کی وہ سفارش نہیں مان رہے تھے کیا اس لیے ا?پ انہیں تبدیل کرانا چاہتے تھے؟۔انجم عقیل خان نے جواب دیا کہ میں نے سفارش نہیں کی۔
عدالت نے سوال کیا کہ اچھا آپ نے سفارش نہیں کی؟ آپ پارلیمنٹرین ہیں، آپ کو قانون سازی کرنی ہوتی ہے، آپ نے جج پر کیوں الزام لگایا؟ آپ نے وکیل صاحب کو کیوں کہا کہ درخواست دیں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ غلط آرڈر کیا تھا تو آپ سپریم کورٹ چلے جاتے، آپ نے یہ زبان جان بوجھ کر استعمال کی ہے؟۔
انجم عقیل خان نے جواب دیا کہ جان بوجھ کر یہ الفاظ استعمال نہیں کیے، الفاظ کے چناؤمیں غلطی ہو گئی ہے۔عدالت نے سوال کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ جج کی تبدیلی کی درخواست کیوں دی؟جج کا کیا تعصب تھا بس اتنا بتا دیں؟
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ علی بخاری اور دیگر نے الیکشن ٹریبونلز کی تبدیلی کو چیلنج کیا تھا۔