اسلام آباد: بانی پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف مقدمے کی نظرثانی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمے میں پارلیمنٹ نہ جانے کی غلطی تسلیم کرلی۔کہاکہ یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کی نظرثانی درخواست پر سماعت کی جہاں بانی پی ٹی آئی بذریعہ ویڈیو لنک اڈیالہ جیل سے پیش ہوئے اور اس دوران ان کی چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں سے مکالمہ ہوا اور انہوں نے ججوں کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔
بانی پی ٹی آئی نے ان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بات اور جیسے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ اسکورنگ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے بیان سے لگتا ہے میں ایک غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، آپ صرف موجودہ کیس پر رہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں، ہمارے ساتھ تو ظلم ہو رہا ہے، غیر اعلانیہ مارشل لا لگاہوا ہے، میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔
گفتگو کے دوران جب بانی پی ٹی آئی نے سائفر کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ مقدمات جو ہمارے سامنے آنے ہیں ان پر بات نہ کریں، ہمارا پہلے بھی یہی خدشہ تھا۔
چیف جسٹس کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہیے تھا، اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے جو ترسیلات زر آتی ہیں اشرافیہ باہر بھیج دیتی ہے، جس پر چیف جس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ نے ایمنسٹی کیوں دی، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایمنسٹی اس لیے دی کہ معیشت بلیک تھی اسے ایک روٹ پر لانا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کریں، یہ دشمن نہیں ہیں، جائیں جا کر اراکین پارلیمنٹ سے بات کریں، الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو بات کرنے کا کہا، ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے، کوئی اعتراض نہ ہو، سیاست دان آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کریں، پارٹی کی بات ہمارے سامنے نہ کریں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے جیل میں دی گئی سہولیات اور جو نواز شریف کو سہولیات دی گئی تھیں ان کا موازنہ کروا لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جوڈیشل افسر سے سرپرائزنگ وزٹ کروا لیں گے۔
بانی پی ٹی آئی نے جب اپنے دلائل مکمل کرلیے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مرتبہ پھر پوچھا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں اور چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی معاونت کا شکریہ اور بانی پی ٹی آئی نے بھی کہا کہ آپ کا بھی شکریہ، اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں نیب کا جمع کردہ جواب مسترد کیا اور نیب سے 10 سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا اور کہا کہ کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کروانا چاہے تو کرواسکتا ہے۔