اسلام آباد:اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی 2022 میں گرفتاری کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے بانی پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتاری سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دروازے توڑ کر چیزیں توڑ جیسے لے گئے کیا ایسے ہی گرفتاری ہوئی تھی۔ پھر وہ گرفتاری سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دی تھی۔ یہ وقت وقت کی بات ہے یہ سائیکل ہے کل ادھر والے دوسری طرف کھڑے ہونگے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی 2022 میں ہونے والی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے اینٹی کرپشن حکام سے استفسار کیا کیا آپکی ٹیم گرفتاری کے لیے آئی تھے اینٹی کرپشن حکام نے بتایا ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہم نے شیریں مزاری کو نوٹس کیا تھا گرفتاری سے پہلے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا تھانہ کوہسار کی پولیس ہمارے ساتھ تھی ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل نے کہا اینٹی کریشن حکام کو چاہیے تھا کہ گرفتاری کے بعد مجسٹریٹ کے پاس لیکر جاتے،عدالت نے ریمارکس دیے جب کسی کی گرفتاری غلط ڈیکلیئر ہو جائے تو اس دوران جو ہوا اس کی حیثیت کیا ہو گی ؟ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں اسلام آباد سے ہمارے دائرہ اختیار کے اندر گرفتاری درست ہوئی یا نہیں۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری پر جسٹس محسن اختر کیانی نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہوا یہاں کورٹ سے ایک آدمی کو اٹھا کر لے گئے دروازے توڑ کر چیزیں توڑ کے جیسے لے گئے کیا ایسے ہی گرفتاری ہوئی تھی پھر وہ گرفتاری سپریم کورٹ کے غیر قانونی ڈیکلیئر کر دی تھی ایسے منہ اٹھا کر کوئی دوسرے صوبے میں جا کر کیسے گرفتار کر سکتا ہے یہ وقت وقت کی بات ہے یہ سائیکل ہے کل ادھر والے دوسری طرف کھڑے ہوں گے آج جو حکومت میں ہیں تو وہ اٹھائیں گے ہوں گے کمیشن ریورٹ اور عدالت کے فیصلے کے تناظر میں ہم نے آگے چلنا ہے یہ جو اس کورٹ کے اندر ہوا ہم تو اس کی انکوائری نہیں کر سکے۔
عدالت نے کہا یہاں ہائی کورٹ کا تو ہم پردہ بھی درج نہیں کرواسکے۔ بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔