اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی جبکہ عدالت نے کے پی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور کر لی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ 20 افراد ایسے ہے جنکی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دیکر رہا کیا جائے گا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دیدی جائے گی، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، جن کی رہائی کیلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا ، دوسرا اسکی توثیق ہوگی، تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعا کی۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ جنہیں رہا کرنا ہے انکے نام بتا دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب تک فوجی عدالتوں سے فیصلے نہیں آ جاتے نام نہیں بتا سکتا۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی، فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کے پی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور کر لی۔ کے پی حکومت نے سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔
عدالت نے تین سال سے کم سزا پانے والوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔
بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کردی۔