اسلام آباد / کراچی / لاہور: عالمی یوم خواتین کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت متعدد شہروں میں عورت مارچ کیا گیا اور مظاہرین نے خواتین کے تحفظ اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا اور فلسطینی خواتین سے یک جہتی کا بھی اظہار کیا گیا۔
سینیٹ میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
اسلام آباد میں عورت مارچ کا انعقاد پریس کلب کے باہر کیا گیا، عورت مارچ میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس موقع پر عورت مارچ کے منتظمین اور پولیس اہلکاروں میں تصادم بھی ہوا اور دھکم پیل میں 3 خواتین نیچے گر گئیں۔
عورت مارچ میں شریک خواتین نے شدید نعرے بازی کی، مارچ سے سماجی ورکر فرزانہ باری اور ایمان مزاری نے خطاب کیا، مظاہرے کے دوران پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی اور ضلعی انتظامیہ کی جانب خاردار تاریں لگا کر سڑک چاروں اطراف سے بند کردی گئی تھی۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں عور ت مارچ کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق دیے جائیں، کم عمری میں شادی پر پابندی کے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
کمیشن برائے انسانی حقوق نے خواتین دشمن رویوں اور شدید معاشی عدم استحکام جیسے ماحول میں کام کرنے والی خواتین کو تحفظ اور مردوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا ہے
لاہورمیں عورت مارچ کا آغاز لاہور پریس کلب سے ہوا جو ایجرٹن روڈ سے گزرتا ہوا پی آئی اے بلڈنگ کے سامنے پہنچا، خواتین اپنے حقوق کے لیے نعرے بلندکرتی رہیں، جنہوں نے ہاتھوں میں مختلف پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین پرجنسی جسمانی تشدد، امتیازی سلوک ، خواتین کی صحت، تعلیم کے مسائل اور خاص طور پر وراثت میں حصے کو اجاگر کیا گیا تھا۔
عورت مارچ میں مختلف شعبوں اور این جی اوز سے تعلق رکھنے والی خواتین سمیت خواجہ سرا کمیونٹی نے بھی شرکت کی، خواتین نے لوک گیتوں اور خاکوں کے ذریعے اپنے مطالبات دہرایا، مارچ میں شریک بعض خواتین نے میرا جسم، میری مرضی جیسے نعروں اور احتجاج کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
عالمی صنفی عدم مساوات گوشوارے 2023 کے مطابق عورتوں کی معاشی شمولیت اور مواقع کے حوالے سے 146 ممالک کی فہرست میں پاکستان 143 ویں درجے پر ہے، پاکستان افرادی قوت سروے 2020-21 کے مطابق ملک کی افرادی قوت میں عورتیں صرف 23.5 فیصد ہیں حالانکہ کام کرنے والی آبادی کا 49.4 فیصد عورتوں پر مشتمل ہے۔
اسی طرح خواتین خاص طور پر مسیحی اور ہندو عورتیں اپنے قانونی وراثتی حقوق سے بدستور محروم ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے حقوق کی ضمانت دینے والے قوانین کا مؤثر اطلاق نہیں ہو رہا۔
کراچی میں مختلف مقامات پر عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا اور عورت مارچ کیا گیا اور خواتین کے حقوق کے مطالبات دہرائے گئے۔
حلقہ خواتین جماعت اسلامی کراچی کے تحت عالمی یوم خواتین کے حوالے سے فلسطینی خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی پریس کلب پر خواتین واک کیا گیا جہاں خصوصی خطاب کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پورے پاکستان میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر غزہ اور فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے، پوری دنیا کے انسانی حقوق کے ادارے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں الجھنے کے بجائے اہل غزہ و معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین کا ساتھ دیں۔
خواتین واک کی قیادت حلقہ خواتین جماعت اسلامی کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم نے کی، خواتین واک میں غزہ اور اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔
بینرز اور پلے کارڈز میں تحریر تھا کہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے پرعزم خواتین کے نام، عورتوں کا عالمی دن غزہ کی ماؤں کے نام، غزہ کی عورت نے صبر واستقامت کی رقم تاریخ کی ہے، معاشرے کا تحفظ حجاب میں ہے،عورت اور مرد مقابل نہیں مددگار ہیں، تہذیب ہے حجاب۔
فریئر ہال کراچی میں احتجاجی میلہ 2024 منعقد کیا گیا جہاں ڈھول کی تھاپ پر خواتین اور خواجہ سراؤں نے دھمال ڈالا اور میلے میں شیما کرمانی نے خواتین شرکا کو رقص کی کلاس دی۔
عورت مارچ میں میرا جسم میری مرضی، میرے کپڑے میری مرضی اور میرا مذہب میری مرضی کے نعرے بھی لگائے گئے، احتجاجی میلے اور مارچ 2024 میں پدر شاہی کے قبرستان کی عکاسی کی گئی، جس میں فلسطین کے شہدا اور تشدد کا نشانہ بن کر جان گنوانے والی خواتین اور بچوں کی قبروں کی ڈمی بنائی گئیں۔
احتجاجی میلے میں تین سیشنز کے ذریعے مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کے مسائل، تحفظ اور خواتین کے معاشی حق پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پہلے سیشن میں جڑاوالہ کے واقعے کا ذکر بھی کیا گیا، جس میں 32 گرجا گھر نذر آتش کر دیے گئے تھے، دوسرا سیشن خواتین اور خواجہ سراؤں کے معاشی حق پر تھا اور تیسرا سیشن خواجہ سرا طبقے کے حقوق اور مسائل کے لیے تھا، تیسرے سیشن میں رکن سٹی کونسل اور خواجہ سرا شہزادی رائے نے اظہار خیال کیا۔
بعد ازاں شرکا نے فریئر ہال سے تین تلوار تک مارچ کیا ، مارچ کے دوران میرا جسم میری مرضی، ہم کیا مانگیں آزادی جیسے نعروں سے تیار کردہ گانا بھی بجایا گیا، اس دوران فریئر ہال سے دو تلوار جانے والی سڑک پر ٹریفک کی روانی متاثر رہی، تین تلوار پر پہنچ کر مظاہرین نے رقص کیا اور اپنے مطالبات کے لیے نعرے بھی لگائے۔